ہم لوگ کھانے پینے کے بہت شوقین ہیں روزانہ صبح و شام سوچے سمجھے بغیر کچھ نہ کچھ کھاتے پیتے رہتے ہیں، کیا ہم میں سے کسی نے یہ سوچا ہے کہ ہم کیا کھاتے ہیں ہماری اس خوراک میں کیا کیا اجزاء موجود ہیں؟ کیا ہم روزانہ اپنی خوراک میں کاربوہائیڈریٹ، پروٹین، چربی، وٹامنز اور نمکیات و معدنیات متعین مقدار میں لیتے ہیں ؟بلاشبہ غذاایسا مادہ ہے جو ایک انسان کو جسمانی و ذہنی نشونما اور تندرستی کیلئے غذائیت سے بھر پور توانائی فراہم کرتا ہے جہاں تک ہمارے جسم کا سوال ہے تو اسے صحت مند رکھنے کیلئے مختلف غذاؤں کی اشد ضرورت ہے لیکن عام انسان اس بات سے بے خبر ہے کہ جو غذا ہم روزمرہ استعمال کرتے ہیں اس میں تیزاب ہوتا ہے اور ہم تیزابی غذاؤں کا زیادہ استعمال کرتے ہیں۔
انسانی جسم کیلئے چربی ،حیاتین اور قلیل مقدار میں مخصوص قسم کی نمکیات لازمی ہیں کسی ایک جز کی کمی سے جسم کے خلیوں پر منفی اثرات پڑتے ہیں لیکن غیر متوازن غذا کے استعمال سے بیماریوں کیلئے راہ ہموار ہوتی ہے، مثلاً ہم گوشت کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں چونکہ گوشت میں تیزاب ہے اس لئے جسم کا اندرونی ماحول تیزابی ہو جاتا ہے ،علم نہ ہونے اور کھانے سے پہلے یہ نہیں سوچتے کہ اس غذا میں کوئی ضرر رساں اجزا تو شامل نہیں ؟ہم اس بات سے قطعی لاعلم ہیں کہ کس غذا میں تیزابیت اور چکناہٹ ہے اور کتنی مقدار میں ہے ؟اکثر و بیشتر بیماری کی حالت میں ڈاکٹرز ہمیں تیل و گھی کے استعمال سے پرہیز کرنے کی ہدایت بھی کرتے ہیں۔
صحت مند رہنے کیلئے نہ صرف مناسب و متوازن غذا اہمیت کی حامل ہے بلکہ یہ جاننا بھی بے حد ضروری ہے کہ ہم جو غذا کھا رہے ہیں وہ ہماری صحت اور تندرستی کیلئے مفید بھی ہے یا نہیں ،اور اس کلیئے پر تو عمل کرنا سراسر نادانی ہے کہ صرف کھانے پینے سے ہی صحت اچھی رہتی ہے اس کے ساتھ ساتھ یہ جاننا بھی لازمی ہے کہ اس غذا میں شامل اجزاء کتنا نقصان دہ یا مفید ہیں، نہ کہ پیٹ بھر کر کھا پی لیا اور بد ہضمی کی صورت میں معدے یا پیٹ کی تکلیف کے باعث ڈاکٹر سے رجوع کرنا پڑا یا ہاضمے کی گولیاں کھا لیں ،ہاضمے کی گولیوں میں بھی ایسڈ شامل ہوتا ہے جو وقتی طور پر تکلیف سے نجات دلا دیتا ہے لیکن مستقبل میں اسکے اثرات نقصان دہ ہوتے ہیں۔
ہم کوئی بھی غذا صرف پیٹ بھرنے کیلئے ہی کھاتے ہیں ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں ہوتا کہ ہماری غذا میں آیا وہ سب لازمی اجزاء موجود ہیں جو ہمارے جسم کو تندرست و توانا رکھنے میں اہم رول ادا کرتے ہیں۔ہمارے نظام ہاضمہ ،دل، دماغ ، گردوں ، جگر ، پھیپھڑوں اور دوران خون پربے حد مثبت اثرات پڑ سکتے ہیں بشرطیکہ ہم اپنی غذا کو متوازن رکھنے میں کامیا ب ہو جائیں ،لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ گزشتہ چند سالوں میں خوراک کے معاملے میں ایسا انقلاب آیا ہے جس سے سب کچھ بدل گیا ہے،ہم مغربی طرز وعمل کی طرف رواں دواں ہیں فاسٹ فوڈ نے ہمیں کئی انجانی بیماریوں میں مبتلا کر دیا ہے علاوہ ازیں شاید ہی دنیا میں کوئی انسان میٹھی اشیاء کا اتنا رسیا ہو جتنا ہم ہیں اور اسی وجہ سے شوگر ، ذیا بیطس،ہائی بلڈ پریشر، امراض قلب ،موٹاپا اور کئی سرطانی بیماریوں میں مبتلا ہو گئے ہیں تیزابی غذاؤں کا بے دریخ استعمال شادی بیاہ اور تہواروں پر کیا جاتا ہے، گوشت کا حد سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ،اور کھانے کے بعد میٹھا لازمی قرار دیا جاتا ہے،مصالحے دار، چکناہٹ اور تیزابیت سے بھرپور غذا اور اوپر سے شیریں خوراک،ذردہ، سویاں،کھیر اور مٹھائی وغیرہ دونو ں صحت کے لئے مضر ہیں کیونکہ تیل یا چربی سے تیار شدہ کھانا دل کے امراض کا باعث بنتا ہے اور میٹھا شوگر پیدا کرتا ہے۔ صحت اور غذاسے متعلق جرمن ماہرین نے تحقیقات کرنے کے بعد چند اجزاء کے بارے میں خاص طور پر محتاط رہنے کی تلقین کی ہے ان کا کہنا ہے کہ روزمرہ کی خوراک میں چند اشیاء کا کثرت سے استعمال کئی بیماریوں کا سبب بن سکتا ہے یا اموات بھی واقع ہو سکتی ہیں۔
Milk
مثلاً دودھ کے زیادہ استعمال سے الرجی یا دست لگنے کا خدشہ ہے۔الکو حل کے استعمال سے جگر کے علاوہ معدے کی نالی، لبلبہ، قلبی نظام ، یاداشت اور پٹھوں کو شدید نقصان پہنچتا ہے خاص طور پر حاملہ خواتین کیلئے زچہ و بچہ کی موت کا سبب بھی بن سکتا ہے یا بچے کی جسمانی ساخت پر اثر پڑ نے کے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ تلخ، کڑوے بادام میں سائینائیڈ ہوتا ہے کڑوے بادام کا تیل انتہائی خطرناک ہے خام انڈے کھانے سے سالمونیا انفیکشن کا خطرہ ہے جس کی علامات ،قے، پیٹ میں درد ، دست اور بخار نمایاں ہیں خاص طور پر بچوں اور عمر رسیدہ افرادکے لئے خطرے کا باعث ہیں۔مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں میں سمندری آلودگی کافی مقدار میں پائی جاتی ہے ان کے زیادہ استعمال سے مضبوط اعصاب کے افراد کو بھی متلی، قے، توازن، پٹھوں، سانس لینے میں تکلیف اور پندرہ منٹ کے بعد ہی موت واقع ہو سکتی ہے۔کسی قسم کا کچا گوشت حاملہ خواتین کے لئے ممنوع ہے اس سے خواتین لیسٹریا میں مبتلا ہو سکتی ہیں اور مہلک جراثیم بچے کو نقصان پہنچا سکتے ہیں کچے گوشت سے خارش اور آنتوں کی سوزش کا بھی خطرہ ہے۔فرانسیسی فرائز، کوکیز اور کیک میں چربی کی بہت بڑی مقدار پائی جاتی ہے وہ خون میں ایل ڈی ایل کولیسٹرول میں اضافہ کرتے ہیںاور دل کی بیماری کا سبب بنتے ہیں۔بہت زیادہ کافی کے استعمال سے کانپنا، بے چینی ،قے یا دل کی دھڑکن کی خرابی کی شکایت اور پیٹ کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
سرسوں کے تیل کا کوکنگ میں زیادہ استعمال متلی اور قے کا سبب بن سکتا ہے اور گردوں کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ شہد شیر خوار بچوں کے لئے ممنوع ہے کیونکہ اس کی تیاری کے دوران جراثیم مکمل طور پر ختم نہیں ہوتے اور زہریلا مواد بچوں کے خون میں سرایت کرتا ہوا آنتوں اور پٹھوں کو مفلوج کر سکتا ہے۔ڈرائی فروٹ میں سب سے زیادہ الرجی کی محرکات پائی جاتی ہیں جو کم مقدار کے استعمال سے بھی دمے کی بیماری کا سبب بن سکتی ہیں عام طور پر مونگ پھلی الرجی کا باعث بنتی ہے۔پھل اور سبزیاں اکثر کیڑے مار سپرے اور ادویات پر مشتمل ہوتی ہیں لہذٰا انہیں ہمیشہ اچھی طرح دھونے اور چھیل کر استعمال کیاجائے کالی چائے میں سیلی سیلک ایسڈ کی بہت مقدار ہے الرجی کے شکار کو چائے سے مزید ہوشیار رہنا چاہئے۔وٹامن کے بارے میں ہر انسان کا خیال ہوتا ہے کہ وہ صحت کے لئے مفید ہیں لیکن بہت سے وٹامن آپ کو بیمار کر سکتے ہیں ،مثلاً وٹامن سی گردے میں پتری کاسبب ، وٹامن اے سر میں درد ، چکر،غنودگی اور قے کی وجہ بنتا ہے،بہت زیادہ وٹامن ڈی خون میں کیلشیم کی سطح کو بڑھاتا ہے جس کے نتیجے میں متلی ، پٹھوں کی کمزوری ، جوڑوں کا درد وغیرہ،بہت زیادہ وٹا من کے جگر کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
دنیا بھر میں انسان کھانے پینے کے ساتھ ساتھ ورزش ،سپورٹس ،جمناسٹک ،واکنگ اور جاگنگ کرتے ہیں تاکہ اپنے جسم کو فٹ اور تندرست رکھ سکیں اور پاکستان میں لوگ کھانے پینے کے بعد لمبی تان کر سو جاتے ہیں ،اور اسی وجہ سے وہ اپنے جسم کو فٹ نہیں رکھ پاتے اور مختلف بیماریوں میں مبتلا ہو جاتے ہیں ،دنیا کا کوئی انسان اچھی خوراک کے ساتھ ساتھ اگر ورزش بھی کرتا ہے تو دس سے بیس سال زیادہ زندگی پاتا ہے ، مغربی ممالک میں ستر اور اسی سالہ بوڑھے افراد سائیکل چلاتے ہیں جبکہ پاکستان میں چالیس پینتالیس سال کی عمر میں لوگ اپنے آپ کو عمر رسیدہ افراد میں شامل کرنا شروع کر دیتے ہیں اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ تمام عمر صرف کھایا، پیا اور سویا۔۔۔۔