امریکی سینیٹرز کی جاسوسی، سی آئی اے ڈائریکٹر نے معافی مانگ لی

John Brennan

John Brennan

واشنگٹن (جیوڈیسک) امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جون برینن نے سینیٹرز کی جاسوسی کرنے پر معافی مانگ لی ہے۔ غیر ملکی خبر ایجنسی کے مطابق امریکی سی آئی اے نے غیر قانونی طریقے سے سینیٹرز کے کمپیوٹرز کی سکینینگ کی۔

اس بات کا انکشاف خود سی آئی اے کے ایک اعلیٰ افسر کی جانب سے کیا گیا کہ سی آئی اے ایجنٹوں نے اپنی حد سے تجاوز کیا جس کے بعد امریکی سی آئی اے کے ڈائریکٹر جون برینن نے جاسوسی کرنے پر معافی مانگ لی۔ اس سے پہلے مارچ میں بھی انٹیلی جنس کمیٹی کے سامنے سینیٹرز کی جاسوسی کا معاملہ آیا تھا لیکن ڈائریکٹر سی اے آئی صاف مکر گئے تھے۔

سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن نے امریکی سینیٹ کی سیلیکٹ کمیٹی آن انٹیلی جنس کی سربراہ سینیٹر ڈائین فائنسٹائن سے معذرت کرتے ہوئے یہ تسلیم کیا کہ ان کے عملے کے ارکان کے کمپیوٹروں تک رسائی حاصل کی گئی تھی۔ یہ امر اہم ہے کہ قبل ازیں جان برینن نے ان خبروں کو مسترد کر دیا تھا۔ ان تازہ انکشافات کے بعد اب معاملے کا نئے سرے سے جائزہ لیا جائے گا اور سی آئی اے کے اہلکاروں کو تادیبی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے سینیٹر ڈائین فائنسٹائن نے کہا تفتیش سے اس بات کی تصدیق ہو گئی ہے جو میں نے مارچ کے ماہ میں سینیٹ میں کہی تھی۔“ فائنسٹائن نے سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن کی طرف سے معافی مانگنے کے عمل کو پہلا مثبت قدم قرار دیا۔ ایک اور سینیٹر اور سینیٹ کی عدلیہ سے متعلق کمیٹی کے سربراہ پیٹرک لیاہی نے فائنسٹائن کے مقابلے میں کافی سخت موقف اختیار کیا ہے۔

تنازع کا سبب کمپیوٹر آرکائیو بنی جسے سی آئی اے نے ورجینیا میں ایک محفوظ مقام پر نصب کیا تھا۔ اس کا مقصد یہ تھا کہ ایجنسی کی جانب سے 2002ء تا 2006ء کے درمیان قیدیوں کے ساتھ مبینہ بدسلوکی سے متعلق خفیہ دستاویزات کو سینیٹ کے ان ارکان کے لیے دستیاب بنایا جائے جو اس معاملے کی تحقیقات کر رہے ہوں۔

رواں برس مارچ میں سینیٹر ڈائین فائنسٹائن امریکی انٹیلی جنس ایجنسی سی آئی اے پر برس پڑیں اور یہ الزام لگایا کہ سی آئی اے نے اس نیٹ ورک تک رسائی حاصل کی اور جاسوسوں نے چند دستاویزات کو آرکائیو سے ہٹانے کی بھی کوشش کی۔ سینیٹر فائنسٹائن اور چند دیگر سینیٹرز نے اسے امریکی آئین کی خلاف ورزی قرار دیا تھا۔