”جو لوگ افغان جہاد میں روس کے خلاف لڑ رہے تھے وہ امریکہ سے بھی اتنی ہی نفرت کرتے تھے۔ لیکن اس بات سے لاعلم تھے کہ وہ بے خبری میں امریکہ کے ہاتھ مضبوط کر رہے ہیں ”۔کسی کالم نگار کے یہ الفاظ میں نے کوئی تیرہ چودہ برس پہلے پڑھے تھے اور آج تک میں انہیں بھلا نہیں پایا ۔شروع شروع میں میرا خیال تھا کہ کالم نگار نے اس ایک جملے میں افغان جہاد کی پوری تاریخ لکھ ڈالی ہے۔لیکن بعد میں مجھ پر کھلا کہ افغان جہاد پر اس سے زیادہ گمراہ کن تبصرہ شاید ممکن نہ ہو۔
مان بھی لیا جائے کہ مہاجرین لاعلم تھے تو سوال یہ ہے کہ اس غفلت ،لاعلمی اور بے وقوفی کی سزا کس کو دی جائے ؟اگر نچلی سطح کے افراد ،جو اس جنگ کا ایندھن بنے، لاعلم تھے بھی تو کیا ان کے مذہبی جذبات کا استحصال کرنے والے بھی اندھیرے میں تھے ؟؟؟ہم دیکھتے ہیں ہماری کچھ خاص مذہبی جماعتیں جواس وقت” جہاد ”کے بھجن گاتی تھیں ،انکا کل اور آج ایک سا ہے۔
یہ مذہبی گروہ آج بھی اس بات کا کریڈت لیتے نہیں تھکتے کہ ان کے جہاد نے روس کی پیش قدمی روک دی اور ایک عالمی طاقت کو نہ صرف غرور خاک میں ملایا بلکہ اس کی وحدت کو بھی پارہ پارہ کرڈالا۔یہی وجہ ہے کہ یہ مردِ بیمار آج تک اپنے زخم چاٹنے پر مجبور ہے ۔ کیا ایسے لوگوں کو کبھی یہ تو فیق مل پائے گی کہ وہ اپنے اس گناہ کا کھلے بندوں نہ صرف اعتراف کریں بلکہ قوم سے معافی بھی مانگیں کیا ہمارے ہاں ایسی کوئی رویت کبھی پروان چڑھ پائے گی کہ ہم دوسروں کا گریبان تھامنے سے پہلے اپنے گریبان میں منہ ڈال کر اپنا احتساب خود کر سکیں؟ بے زبانی بخش دی خود احتسابی نے مجھے ہونٹ سل جاتے ہیں دنیا کو گلہ دیتے ہوئے
مجھے یہ بات بھی تو نہیں بھولتی کہ کس طرح روس کا ہوا کھڑا کیا گیا ؟ کہتے تھے افغانستا ن روس کے قبضے میں آگیا تو ہمارا ٹیٹوا دبا دے گا ۔ہماری سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی ، ہمارے وجودکو خطرات لاحق ہوں گے ۔سو یہ جنگ افغانوں کی نہیں ہماری بقا کی جنگ ہے ۔تب وہ یہ بھی بھول گئے تھے کہ یہ دنیا کا مشکل ترین محاز جنگ حملہ اوروں کو کبھی راس نہیںآیا۔اگر یہ ایسا ہی تھا تو کیا ہی اچھا ہوتا ہم پرائی شادی میں دیوانے بن کر نہ ناچتے ۔احسا س زیاں جاتا رہے
تو ادراک کے سارے در بند ہو جایا کرتے ہیں ۔آگہی روٹھ اور روشن ضمیری تاریکی میں ڈوب جاتی ہے۔ضیائی فتنہ اور اس کے بد ترین اثرات جانے کب تک ہمارے زخمی وجود سے کھلواڑ کرتے رہیں گے؟ایک اور سوال کی بھی اجازت درکار ہے ۔اُس وقت روس سے ڈرانے اور لوگوں کوا فغان جہاد میں لڑانے والے آج خاموش کیوں ہیں؟ روس سے بڑا فتنہ امریکہ ہماری آزادی ،خود مختاری اور بقا کے درپے ہے ۔ لیکن جہاد کے داعی آج دم سادھے بیٹھے ہیں ۔وہ کیوں امریکہ کے خلاف روس جیسی مزاحمت نہیں کرتے؟
وہ جو امریکی نفرت میں کتے تک کو شہید کو درجہ دینے سے نہیں گھبراتے ،ان کا جہاد اب صرف نعروں اور اخباری بیانات تک کیوں محدود ہے؟۔کل تک روس کے خلاف تو انہیں آسمانی حمایت بھی حاصل تھی توآج …..کیاآج انکا اوپر والے سے رابطہ ٹوٹ چکا ہے ؟امریکہ کے خلاف جہاد تو رہا ایک طرف ،انکے پروردہ طالبان کے لیڈران کو شہادت کے تمغے بانٹتے والے پاک فوج کے شہدا سے خدا واسطے کو بیر رکھتے ہیں ۔غیرت وحمیت کی بابت اب تک تویہی سنا تھا کہ تیمور کے گھر سے رخصت ہوئی ہے۔
بعض مذہبی جماعتوں کی مخالفت کے باوجود ضربِ عضب کامیابی کے مراحل طے کر رہا ہے۔قوم کی دعائیں اپنی بہادر افواج کے ساتھ ہیں۔ زمینی کاروائیوں میںبھی کامیابی قدم وقدم پر قدم چوم رہی ہے۔ صحافیوں کوآپریشن کے بعد پہلی بار علاقے کا دورہ بھی گرایا گیا ہے۔ کچھ لوگ فضائی کارروائی کی طوالت دیکھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ حالات شاید کنٹرول میںنہ آئیں۔ شکر ہے ان کے خدشات نقش بر آب ثابت ہوئے ہیں ۔تاہم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ فوجی حکام کوئی بھی ٹائم فریم دینے سے قاصر ہیں ۔لگتا جس سے یہی ہے کہ بات دنوں کی ہے نہ ہفتوں کی۔تاہم پوری قوم دعا گو ہے کہ جلد ازجلد یہ آپریشن کامیابی سے ہمکنار ہو تاکہ متاثرین ِ کو اپنے اپنے گھروں میں واپس جانے اور پھر سے آباد ہونے کا موقع ہاتھ آئے۔
Load Shedding
مہاجرین کی تعداد ایک ملین سے تجاوز کر چکی ہے ۔ عورتوں اور بچوں کی بڑی بھاری تعداد (73 فیصد) شدید مشکلات کا شکار ہے۔لوگوں کی اکثریت بنوں ،ڈی آئی خان ،ٹانک اور لکی مروت میں موجود ہے ۔جبکہ ”بکاخیل ” کیمپ میں تھوڑی تعداد میں لوگ ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں ۔بنوں کی عوام نے مشکل کی اس گھڑی میں اپنے ہم وطن بھائیوں کے لئے جس طرح دل ونگاہ فرشِ راہ کئے ہیں،اس نے انصارِ مدینہ کی یاد تازہ کر دی ہے ۔لیکن یہ کافی نہیں ہے ۔جگہ کی قلت ،گرمی اور لوڈشیڈنگ مہاجرین کی مشکلات میں بے پناہ اضافے کا باعث بن رہی ہے۔
ملکی سطح پر مہاجرین کی امداد کے لئے کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی ۔حکمران جماعت کی سرد مہری بہت تکلیف دہ ہے۔زبانی جمع خرچ سے بھی کبھی مسائل حل ہوئے ہیں۔کپتان صاحب بھی بلا خر متاثرین تک جا پہنچے ہیں ،لیکن عملی کام کے آگے ایک بڑا سوالیہ نشان لگا ہوا ہے۔آپریشن کے مخالفین،جو اپنی مخالفت کا یہ جواز پیش کرتے تھے کہ آپریشن کے نتیجے میں بے گناہ لوگ مارے جائیں گے،بھی گم صم ہیں ۔دیر آید درست آید کے مصداق پنجاب حکومت نے ایک ریلیف فنڈ قائم کرنے کا اعلان کیا ہے۔
این جی اووز کو مہاجرین کے انسانی حقوق کا جانے کیوں خیال نہیں آتا۔ہماری قوم ایسی بے حس تو کبھی بھی نہیں رہی کہ انہیںوہ اپنے ستم رسیدہ بھائیوں کو دکھ کی اس گھڑی میں تنہا چھوڑ دے۔اٹھارہ کروڑ عوام کے لئے دس لاکھ افراد کو سنبھالنا کچھ ایسا دشوار بھی نہیں۔اور وہ بھی رمضان کے بابرکت ایام میں ۔مہمان خدا کی رحمت ہوتے ہیں ۔اور رمضان توخدا کاخاص انعام ہے ۔توکیسے ممکن ہے کہ” رمضان مہمان ”سے قوم لاتعلق رہے ۔قوم کی اس خاموشی کے ذمہ دار غافل حکمران ہیں۔کل تک ”ملک سنوارو ،قرض اتارو”کا نعر ہ لگانے والے آج ”ملک اتارو ،قرض سنوارو ” کی راہ پر گامزن ہیں۔
کہتے ہیں گھر پر کوئی دشمن حملہ آور ہو یا کوئی آفت آجائے تو گھر کے مکین آپس کے اختلافات بھلا کر اسکی حفاظت کے لئے سیسہ پلائی دیوار بن جاتے ہیں ۔لیکن ہم عجیب لوگ ہیں کہ ہمیں کوئی چیز جوڑ نہیں پاتی۔فکری انتشار ہمیں کتنے حصوں میں بانٹ چکا، ہمیں شایدخود بھی اسکا اندازہ نہیں ۔تین بڑی پارٹیاں حکومت میں ہیں کم ازکم انہیں تو اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہونا چاہئے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف والے اگر چاہتے تو متاثرین کی بحالی کے لئے بہت کچھ ہوسکتاتھا ۔ایک کو قرض کی رقم اور دوسری کو امداد اکٹھی کرنے کا وسیع تجربہ ہے۔لیکن دونوں پارٹیاں اپنے اپنے فرائض سے غفلت برت رہی ہیں۔
چند برس پیشتر،زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے قوم نے جس کشادہ دلی کا مظاہر ہ کیا ،بھلائے نہیں بھولتا ۔پھر کیاوجہ ہے کہ اب ویسا جذبہ دکھائی نہیں دیتا۔اور تو اورمقامی باشندوں کے وہ خیر خواہ بھی خاموش ہیں جو آپریشن کی مخالفت میں اس لئے بھی پیش پیش تھے کہ انہیں انکی ہلاکت کا غم کھائے جاتا تھا۔اپوزیشن کی جماعتیں بھی یوں لاتعلق ہیں جیسے انکا کام محض حکومت گرانا ہو اور بس۔انقلابی بھی یوں چپ سادھ پالیسی پر عمل ہیںجیسے انقلاب کے علاوہ کوئی اوربات منہ نکالنے گناہ کبیرہ ہو۔ اس سب کا قصور وار ہمارا حکمران طبقہ ہے ،جسکی مجرمانہ خاموشی عوام کا وہ جذبہ بیدار ہی نہیں کر پائی جو ایسے موقعوں پر اس ہجوم کو پھر سے قوم بنا دیا کرتا تھا۔کتنا اچھا ہوتا کہ ہمارے وزیراعظم قوم سے خطاب کرتے اور دستِ تعاون دراز کرتے۔
یقین ہے قوم کبھی انہیں مایوس نہ کرتی کہ اس بد قسمت قوم کا کام مایوس کرنا نہیں مایوس ہونا ہے ۔لیکن افسوس یہاں تو ایسا کوئی عزم سرے سے نظر ہی نہیں آتا۔اس قومی بحران پر یہ خاموشی اور لاتعلقی بڑی تکلیف دہ ہے۔شمالی وزیرستان کے باشندے اپنے دیس میں غریب الدیار ہیں ۔انہیں مالی سی زیادہ نفسیاتی،جذباتی اور اخلاقی سہارے کی ضرورت ہے تاکہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں خود کو تنہا نہ سمجھیں۔
لیکن مہاجرین ِ کی غریب الوطنی سے زیادہ حکمرانوں کی بے حسی آبدیدہ کئے دیتی ہے۔کاش ان کی خبر گیری کا فریضہ سرانجام دیا جاتا۔ شریف برادران جلا وطنی کا درد سہہ کر بھی متاثرین دربدری کیلئے کچھ نہیں کر پائے بیٹھ جاتے ہیں جہاں چھاؤں گھنی ہوتی ہے ہائے کیا چیز غریب الوطنی ہوتی ہے۔