کراچی (جیوڈیسک) حکومتِ سندھ کو اسلام آباد کی جانب سے ایک خط موصول ہوا ہے، جس میں صوبے اور خصوصاً کراچی میں وسیع پیمانے پر انسدادِ پولیو مہم شروع کرنے کے لیے کہا گیا ہے۔شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن کے آغاز کے بعد سے نقلِ مکانی پر مجبور ہونے والے افراد کی صوبے میں آمد پر بطور پیش بندی یہ اقدام اُٹھانے کے لیے کہا گیا ہے۔
صوبائی محکمہ صحت کے حکام کا کہنا ہے کہ انہیں ایک خط پچھلے ہفتے اسلام آباد سے موصول ہوا تھا، جس میں کہا گیا ہے کہ معذور کردینے والی اس بیماری کا مقابلہ کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ کوششیں کی جائیں۔ اس بیماری کے بڑھتے ہوئے واقعات کے نتیجے میں عالمی ادارۂ صحت کی جانب سے پاکستان پر سفری پابندیاں عائد ہوئی ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ اسلام آباد میں حکام سندھ میں خاص طور پر رمضان کے دوران پولیو کے خاتمے کے حوالے سے متعلقہ حکام کی سرگرمیوں کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں۔ یہ خط جسے حکام نے سرکاری یادداشت قرار دیا ہے، کہا گیا ہے کہ ’’یہ مہینہ نہایت اہم ہے، اس لیے کہ یہ عالمی ادارۂ صحت کی پابندیوں کے فوراً بعد آیا ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ اس دوران بہت زیادہ کوششیں کی جائیں۔‘‘
ایک ذرائع نے اس دستاویز کے مواد کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ’’یہ وقت ہے کہ پولیو کے خلاف جنگ میں آگے بڑھا جائے، اس لیے کہ پہلے ہی اس مرض سے ملک کو کافی حد تک نقصان پہنچ چکا ہے۔‘‘ تاہم حکام نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے پولیو کے جڑ سے خاتمے کے لیے تمام دستیاب وسائل کے ساتھ پورا مہینہ صرف کیا تھا۔
جس میں انسدادِ پولیو کی کئی مہمات بھی شامل ہیں، جن کی سیکیورٹی کی وجوہات کے پیش نظر میڈیا میں تشہیر نہیں کی گئی۔ ان مہمات کا انعقاد کراچی کے مغربی اور مشرقی کناروں پر واقع شہر کے سب سے زیادہ حساس علاقوں میں کیا گیا تھا۔
لیکن انہوں نے تسلیم کیا کہ سیکیورٹی کی عدم دستیابی کی وجہ سے انسدادِ پولیو کی بہت سے مہمات چلائی نہیں جاسکی ہیں۔ ایک سینئر پولیس اہلکار نے کہا ’’ہر جگہ بڑے اجتماعات اور خریداروں کے ہجوم کو سب سے زیادہ پولیس کے تحفظ کی ضرورت تھی، اسی وجہ سے رمضان کے دوران کراچی میں انسدادِ پولیو کی بعض مہمات کی ہم منظوری نہیں دے سکے۔‘‘
موجودہ صورتحال میں پولیس کے تحفظ کی ضرورت ہے اور ان علاقوں میں جہاں پولیو مہم کا ارادہ ہے، ڈبل سواری پر پابندی عائد کی جائے گی۔ یہ اقدام حالیہ حملوں کے بعد لازم قرار دے دیا گیا ہے، جس میں کئی رضاکار ہلاک اور بہت سے زخمی ہوئے تھے۔
کسی رضاکار کو اجازت نہیں ہے کہ وہ پولیس تحفظ کی غیر موجودگی میں پانچ سال کی عمر تک کے بچوں کو پولیو ویکسین پلائے۔ ملک بھر میں ریکارڈ کیے جانے والے ننانوے پولیو کے کیسز میں سے سندھ کے نو پولیو کیسز تھے، ان میں سے آٹھ کراچی اور ایک سانگھڑ سے تھا۔
پچھلے سال صوبہ سندھ میں پولیو کے دس کیس ریکارڈ کیے گئے تھے، جن میں سے آٹھ کراچی سے تھے، جبکہ 2012ء کے دوران چار کیس ریکارڈ ہوئے تھے، اس سال شہر کو پولیو سے پاک قرار دیا گیا تھا۔ حکام کا کہنا ہے۔
کہ خاص طور پر شہر کے مغربی حصے میں ہزاروں بے گھر افراد کی آمد کے ساتھ پولیو کے مرض کا خطرہ کئی گنا بڑھ گیا ہے، اس لیے کہ رپورٹ کے مطابق ملک میں ریکارڈ ہونے والے پولیو کیسز کا 60 فیصد سے زیادہ حصہ شمالی وزیرستان ایجنسی میں پایا گیا ہے۔
ایک سینئر اہلکار نے کہا ’’یہ انتہائی خطرناک ہے۔ ہمیں ہر بچے کو دیکھنا ہے، لیکن کیا ہمارے اس وقت خدشات مزید بڑھ نہیں جائیں گے، کہ جب شمالی وزیرستان ایجنسی سے آنے والے افراد اپنے رشتہ داروں کے پاس قیام کریں گے، جو ان علاقوں میں رہتے ہیں، جنہیں ہماری فائلوں میں پہلے ہی سب سے زیادہ حساس قرار دے دیا گیا ہے۔‘‘
حکام نے بتایا کہ بلدیہ ٹاؤن، گڈاپ ٹاؤن اور گلشن اقبال کے ملحقہ علاقوں میں پولیو کے متحرک وائرس کا پتہ لگایا گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد نے پنجاب اور خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومتوں سے بھی رابطہ کیا ہے اور راولپنڈی، فیصل آباد اور پشاور کے قصبوں کے سیوریج کے پانی میں پولیو وائرس کی موجودگی پر اسی طرح کی تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پولیو مہمات کو اس سال قیوم آباد میں رضاکاروں پر اور اس سے پہلے عالمی ادارۂ صحت کے ایک ڈاکٹر اور کئی پولیو رضاکاروں پر حملوں کے بعد اچانک کئی مرتبہ روک دیا گیا تھا۔ سرکاری اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ پچھلے اٹھارہ برسوں کے دوران سندھ میں زیادہ سے زیادہ پولیو کے 754 کیسز ریکارڈ کیے گئے ہیں۔
پاکستان کے علاوہ صرف دو ممالک ایسے ہیں جہاں پولیو کیسز 2012ء میں رپورٹ ہوئے تھے، ان میں سے ایک نائجیریا ہے، جہاں 200 سے زیادہ پولیو کیسز ریکارڈ ہوئے،جبکہ دوسرا ملک افغانستان ہے، جہاں ساٹھ سے زیادہ پولیس کیسز ریکارڈ ہوئے۔ان دونوں ملکوں میں اس سال پاکستان سے کہیں زیادہ بہتر نتائج سامنے آئے ہیں۔
اس سال پولیو سے نمٹنے کے لیے ملک میں کی جانے والی کوششوں کو مقامی لوگوں کی غلط فہمیوں اور ویکسینیشن کے بارے میں شکوک و شبہات نے بہت زیادہ متاثر کیا ہے، جس سے تشدد نے جنم لیا ہے۔ اس کے علاوہ پولیو ویکسین کے بارے میں سازشی نظریات پر یقین رکھنے والے والدین کی طرف بھی مزاحمت کی جاتی ہے۔