ارنسٹوچی گویرا بہت نامور ہستی ہے دنیا بھر کی باغی نسل اسے اپنا پیشوا اور نظریاتی قائد سمجھتی ہے اور بہت بلند مقام دیتی ہے جب بندوق کی پہلی گولی چلے گی تو جنگل کو ایک تازہ حیرانی ہوگی اور وہاں اس وقت روشنی کو ساتھ لیے ہم تیرے ساتھ ہوں گے
کیوبا کو نظریاتی موڑ دینے والا چی گویراحکومت کا باغی تھا اسنے بولیویا میں اپنی گوریلا سرگرمیاں شروع کیں اسی جگہ اسے پکڑا گیا اور گولی سے اڑا دیا گیاگولی مارنے سے قبل اس سے اس کی خواہش پوچھی گئی تو اسنے کہا کہ میں اپنے بچوں کے نام ایک آخری خط لکھنا چاہتا ہوںاسنے جو آخری خط لکھا اسکی چند سطور اسکی شخصیت کی ہی نہیں انسانیت کی بھی آیئنہ دار ہیں”اگر کسی دن تم میرا خط پڑھو گے تو اس لیے کہ میں خود تمہارے پاس نہیں ہوں گا تمہارا باپ ایسا آدمی رہا ہے جس نے جو سوچا اس پر عمل کیا دنیا کے کسی شخص کے ساتھ بھی نا انصافی ہو یہی تو تمہار افرض ہے کہ اسے محسوس کروایک انقلابی کی سب سے خوبصورت صفت یہی ہے۔
دنیا میں انسانیت کی عمارت قیام امن کے مضبوط ارادوں پر استوار ہوتی ہے قلمی مجاہد حافظ شفیق الرحمن،مظہر برلاس ،ایثار رانا ۔جبار مفتی ،رضی الدین رضی ارشاد احمد عارف ،اعظم خان خاکوانی جیسے لوگ ایسے کارواں کا ہراول بنے ہوئے ہیں جو دنیا کے ضمیر کو ظلم پر جھنجھوڑ رہا ہے اور یہ ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا تھک گئی ہے ،انسان تنگ نظر اور محدود ہو گیا ہے اسنے غورو فکر کا مسلک چھوڑ دیا ہے۔
جب ملک ملکوں میں سمٹ رہے ہیں ،سرحدوں کی لکیریں گہری اور فکر کی پرواز اپنے مفادات،اپنے علاقوں تک رہ گئی ہے آگ لگتی ہے، خون بہتا ہے، ناانصافی ہوتی ہے تومعدود ے چند انسانیت نواز لوگوں کی طرف سے بہت دیر میں کہیں کوئی لرزتی آواز ابھرتی ہے اور معدوم ہو جاتی ہے۔
نام نہادمہذب دنیا کے لوگ شقی القلب ہوتے جارہے ہیں ظلم کا حصار ہے اور انسانوں نے اسے انسانی زندگی کا معمول سمجھ کر روایتی مظاہرے اور رحم کی اپیل کرنے کی وضع داری کے سوا تمام ذمہ داریوں کو تج دیا ہے۔
عرصہ پہلے کرہء ارض پر انسان دوست رہنمائوں، مفکروں، دانشوروں کی کوئی کمی نہ تھی وہ امن کے قیام اور اختلافات کو ختم کرنے کے لیے اپنے نظریات وضع کرتے وہ رحم دل لوگ وہ خوش کن نظریے رفتہ رفتہ دم توڑ گئے۔
نظریے کتابوں کی زینت بن گئے اور کتابیں افلاطون کی تصوری مثالی ریاست کی طرح الماریوں میں سج گئیں وسیع النظر، اعلیٰ ظرف،فراخ دل لوگوں کی جگہ تنگ نظر ،کم ظرف اور سنگ دل لوگوں نے لے لی ہر قوم کا ایک کردار اور شخصیت ہوتی ہے یہی اسکے امتیاز کو متعین کرتی ہے۔
جب دوسری قوم کی نظروں میں شیطان چھپا بیٹھا ہو اور وہ کسی موقع کی تاک میں بیٹھی ہو تو اتحادو اتفاق سے ہی اس دوسری حریص قوم کی سرکوبی کی جاسکتی ہے علاقوں نے علاقوں کو، تہذیبوں نے تہذیبوں کو اور انسانوں نے انسانوں کو بڑے صدمے پہنچائے ہیں دوستوں پر شب خون مارا گیا اتنے فریب کیے کہ اب امتیاز کرتے ہوئے خوف آتا ہے۔
قوموں کو اسکاتلخ تجربہ ہے کہ جب کوئی ظالم اور بد نیت قوم انکا سکون منتشر کرتی ہے تو اسے باہر دھکیلنے کیلئے بعض اوقات صدیاں اورنسلیں صرف ہو جاتی ہیں وطن عزیز میں کم از کم یہی دیکھا ہے کہ اب کسی رہنما کاسیاسی کردار اپنے قومی مفادات پر منحصر ہوتا ہے چاہے انسانی قدروں کا خون ہی ہو رہا ہودور دور رہنے،کسی مسئلے میں نہ الجھنے،ایک قوم سے دوسری قوم کے خوف زدہ ہونے کا رحجان تیزی سے دنیا میں پھیل رہا ہے ایک زمانے سے بہت سے بنیادی انسانی مسائل کے حل نہ ہونے،ہٹ دھرمی، ضد، ظلم، امریکیت کی ریشہ دوانیاں اور مسلسل استحصال دیکھ کر رد عمل ہونا فطر ی عمل ہے۔
Justice
وہ اعلیٰ انسانی نظریے جن میں مساوات، امن اور انصاف کا درس تھا محدود ہو گیا بڑے لوگوں کی کمی ہو گئی یا انہوں نے خاموشی کی چادر تان لی جس طرف بھی نظر اٹھتی مایوسی کا سامنہ کرنا پڑتا کس نے کس پر ظلم کیا کون حق پر ہے؟ ظلم کے خلاف احتجاج اور طلب حق کی بے حرمتی پر حساس لوگ چپ ہو گئے کہ اسی میں پناہ ہے محب وطن دانشوروںکے سامنے ایک سوال یہ اٹھاکہ؛ فلسطین کی ابتر صورت حال کو اپنے حال پر چھوڑ دیا جائے کیا اس بے حسی،سنگ دلی،بے ضمیری سے مظلوم انسانیت کے مصائب میں کوئی کمی ہوگی انسان چاہے کہیں بھی ہوں وہ انسان ہی ہوتے ہیں ظلم جہاں بھی ہو رہا ہو اسکے خلاف آواز اٹھانی چاہیے انسان چھوٹا ہو گیا ہے۔
اسکا قد بلند کرنا چاہیے انسانیت سے بڑا کوئی رشتہ نہیں اور اس رشتے کو امن کی خاطر ایک لڑی میں پرونے کیلئے ایسے وجود کی ضرورت ہے دنیا بھر کے دانشوروں کے لیے یہ ایک پیغام ہے کہ علاقائی مفادات سے بالاتر ہو کرعالمی برادری کے امن کی طرف توجہ دی جائے اور ایک دعا یہ کہ مسلم اُمہ کو کوئی غیرت مند لیڈر شپ میسر آجائے۔