غزہ فلسطین کا ایک علاقہ ہے جس کی سرحد مصر سے ملتی ہے۔ اس علاقہ کو اسرائیل نے گھیرے میں لے رکھا ہے اور اس کی تجارت اور خارجی معاملات بھی آزاد نہیں۔ اس علاقے میں اسرائیل نے 38 سال قبضہ کرنے کے بعد چھوڑا تو اس کے بعد ظلم و ستم کا بازار گرم رکھا ہے مگر افسوس آج تک کشمیر کی طرح اس کا حل نہیں نکالا گیا۔ کشمیر کی طرح غزہ کے مسلمانوں پرآئے روز ظلم کی پہاڑے ڈھائے جاتے ہیں۔ لیکن آج تک دنیا بھر کے مسلمانوں نے ہم آواز ہو کر ان کے لیے کوئی خاص اقدام نہیں اٹھائے۔
تاریخ کے صفحات الٹنے کی ضرورت نہیں۔ سادہ ترین الفاظ میں بھی مسلم امہ کا کردارہمیشہ شرمناک ہی رہا ہے۔ کیا ہمارے مذمتی بیانات سے اسرائیلی کارروائیاں رک جائیں گی؟ کیا جمعہ کے خطابات میں اسرائیلی مذمت سے فلسطینی مسلمانوں کا دکھ کم ہو جائے گا؟ اگر غزہ کے مسلمانوں کی مدد کرنی ہے تو عرب ممالک اگر صرف ایک ہفتہ کے لیے یورپ اور امریکہ کو تیل کی سپلائی ہی بند کر دیں تو اسرائیل سمیت دیگر غیر مسلم ممالک اپنی اوقات میں آجائیں گے مگر ان میںہمت نہیں ہے کہ وہ ایسا کر سکیں۔
کہاں گئے وہ سارے جہادی جو صرف مسلمانوں کے خون کے پیاسے ہیں؟ انھیں غزہ میں اسرائیلی ستم نظر نہیں آتا؟ وہ جو شام میں ”جہاد” کے لیے بھرتی سنٹر کھولے بیٹھے ہیں کیا وہ چند جہادی لوگ غزہ کے مسلمانوں کے لیے نہیں بھیج سکتے ہیں؟ کرائے کے جہادی تو صرف ادھر کا ہی رخ کرتے ہیں جدھر کا عرب شیوخ کہیں گے۔ ترکی والے مسلمانوں کو کیا ہوا؟ کیا ترکی کی تنبیہ سے اسرائیل باز آجائے گا؟ پاکستان کے نام نہاد لیڈر اور مذہبی جماعتوں کے قائدین خاموشی کیوں اختیار کیے ہوئے ہیں۔ ہم انقلاب کی باتیں کرتے ہیں۔ ہم آزادی مارچ کی تیاری میں ہیں۔ جب کشمیراور فلسطین ہمیں پکار رہا ہے۔ ہم اپنے اقتدارکے لئے میدان میں نکلنے والے ہیں مگر اپنے ان بھائیو ں کی مدد کرنے کے لیے ہمارے پاس ہمدردی کے چند الفاظ بھی موجود نہیں کیونکہ حقیقت کچھ اور ہے۔
Moeen Ali
ہمارے مسلمانوں کے لیے انگلینڈ کے مسلمان کرکٹر معین علی کی مثال کافی ہے جس نے کھیل کے میدان میں اپنے غزہ کے بھائیوںسے محبت کا حق ادا کردیا۔ اس نے کرکٹ کے میدان میں ”سیو غزہ” اور ”فری فلسطین” لکھے رسٹ بینڈ پہن کر یہ ثابت کردیا کہ اس کو اپنے مسلمان بھائیوں سے کتنی محبت ہے۔ اس طرح اس نے غزہ کے معاملے کو انٹرنیشنل لیول پر اٹھاکر خاموش مسلمانوں کے منہ پر طمانچہ مارا ہے۔اس کی اس بہادری کا انعام مسلم دشمن قوتوں کچھ اسطرح کیا کہ اس ہیرو کو وہ رسٹ بینڈ پہننے پرپابندی عا ئد کر دی ہے۔ جس پر ” سیو غزہ”اور ”فری فلسطین” لکھا ہوا تھا۔ انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے کہاکہ ہمارا خیال ہے کہ معین علی نے کوئی غلطی نہیں کی جبکہ آئی سی سی کے مطابق معین علی نے کرکٹ کوڈ آف کنڈکٹ کی خلاف ورزی کی ہے کیوں کہ آئی سی سی قوانین کھلاڑیوں کو بین الاقوامی میچز کے دوران کپڑوں یا دیگر چیزوں پر سیاسی، مذہبی یا نسلی بیانات دکھانے سے روکتے ہیں۔ معین علی پاکستانی نڑاد مسلمان ہیں جن کی گزشتہ دنوں غزہ میں امدادی سرگرمیوں کے لیے برمنگھم میں فنڈز جمع کرنے کی تصاویر بھی سامنے آئی تھیں۔
مسلمانوں کفاروں سے ہی سبق سیکھ لو۔ ان کی ہم آہنگی دیکھ لو کہ وہ اپنے کافر بھائی کی مدد کے لیے کیسے کیسے اقدامات کررہا ہے اور دوسری طرف ہم مسلمان ہیں جو ان کفار کے ڈر سے بزدلی کا طعنہ سن رہے ہیں۔ آسٹریلوی ڈیوڈ بون نے فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی پر تو معین علی کو روک دیا لیکن آئی سی سی کیڈھٹائی کو کیا نام دیں کہ جس ٹیسٹ میں شرکت کے دوران معین علی کی سرزنش کی گئی اسی میچ کے تیسرے روز پہلی جنگ عظیم کے 100 سال مکمل ہونے پر اس جنگ میں لڑائی کے دوران ہلاک ہونے والے کرکٹرز کی یاد میں ایک منٹ کی خاموشی اختیار کی گئی تھی جبکہ انگلش کھلاڑی ایسی شرٹس بھی پہنتے رہے ہیں جس میں ایک ایسی فلاحی تنظیم کا نام کندہ تھا جو جنگوں میں زخمی ہونے والے برطانوی فوجیوں کی مدد کرتی ہے۔اگر آئی سی سی اتنا ہی قوانین کا پابند ہے تو پھر وہ ایک منٹ کی خاموشی اختیار کرنے والے اور ایسی شرٹس پہننے والے کھلاڑیوں پر بھی پابندی لگائے مگر وہ ایسا کیوں کرے کیونکہ آئی سی سی بھی مسلمانوں کے خلاف ہے کفار کے نہیں۔
Muslims
معین علی کے اس اقدام پر بہت سے کھلاڑیوں نے سوشل میڈیا پر ان سے حمایت کا اظہار کیا تھا۔کرکٹ حلقوں کا کہنا ہے کہ معین علی کی سرزنش کرکے آئی سی سی نے ایک مرتبہ پر یہ ثابت کر دیا ہے کہ کرکٹ کا یہ عالمی ادارہ ناصرف متعصب ہے بلکہ کہیں نہ کہیں یہ بھی مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے والے اقدامات کی حمایت کرتا ہے۔
یاد رہے کہ گزشتہ جمعے کو ملائیشین سائیکلسٹ عزیز اللہ آسنی اونگ کو بھی سیو غزہ کے پیغام والے گلو پہننے پر کامن ویلتھ گیمز سے نکالنے کا انتباہ کیا گیا تھا۔کامن ویلتھ فیڈریشن کا کہنا ہے کہ وہ اپنے مقابلوں کو سیاسی مقاصد کیلئے استعمال ہونے سے بچانا چاہتی ہے۔ اگرچہ ملائیشین کھلاڑی نے اپنے اقدام کو سیاسی کی بجائے انسانیت پر مبنی قرار دیا تھا۔
کوئی ان کافروں کو بتائے کہ نہ یہ سیاسی مسئلہ ہے اور نہ مذہبی بلکہ ان سے بڑھ کر انسانیت کا رشتہ بھی تو ہے۔یاد رہے کہ غزہ میں جاری اسرائیلی کارروائی کے خلاف دنیا بھر میں مظاہرے کیے جا رہے ہیں جن میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب کے افراد اور مختلف قومیت کے لوگ بھی حصہ لے رہے ہیں۔اس کے علاوہ دنیا کے مختلف ممالک میں بالخصوص امریکہ میں یہودی برادری میں بھی اسرائیلی کارروائی کے خلاف چند لوگوں نے آواز اٹھائی ہے۔ ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ دنیا بھر کے مذہبی، سماجی اور سیاسی مسلمانوں کو یکجا ہونے کی اور دنیا بھر میں جہاں کہیں بھی مسلمانوں پر ظلم وستم ڈھائے جا رہے ہیں وہاں پرہم سب کو ان کا ساتھ دینے کی توفیق دے۔ آمین
Aqeel Khan
تحریر: عقیل خان آف جمبر aqeelkhancolumnist@gmail.com