فوج اور پولیس کے جوانوں کے ہاتھوں سے لے کر فلموں،ڈراموں، ویڈیوگیمز،اور نیوز چینل پر چلنے والی اکثر خبروں میں اسلحے کی نمائش نے معاشرے میں اسلحہ کو فیشن بنا دیا ہے۔ ملک کی اہم شخصیات جن میں صدر، وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دیگر امرا کے گرد اسلحہ سے لیس محافظ بھی اسلحے کی نمائش میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ آج کا موضوع تو بچوں کے کھلونا ہتھیار ہیں لیکن آج دنیا میں اصلی ہتھیار بھی سرعام کھلونوں کی طرح ہی بازاروں میں دستیاب ہیں۔ریاستی قانون اور اداروں کی موجودگی میں بغیر لائسنس یعنی ناجائز اسلحہ کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق لائسنس یافتہ ہتھیاروں سے کہیں زیادہ ہے۔ خیر میرا آج کا موضوع بچوں کے کھلونا ہتھیارہیں اس لئے اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں۔
گزشتہ چند برسوں سے بچوں میں کھلونا ہتھیار سے کھیلنے کا شوق بے حد تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے ۔شہروں میں بسنے والے والدین کے لئے اس لئے حالات زیادہ مشکل ہیں کہ شہروں میں ہر گلی ،محلے کی دکان پر ایسے کھلونا ہتھیار دستیاب ہیں جن کو دیکھ کر بچے انہیں خریدنے کی اتنی زیادہ ضد کرتے ہیں کہ والدین مجبور ہوجاتے ہیں۔کچھ لوگ تو بے فکری میں اپنے بچوں کو ایسے کھلونے خریددیتے ہیں، کچھ سمجھدارقسم کے لوگ ایسی چیزوں سے بچنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بچنا بہت ہی مشکل ہے اگر والدین بچوں کے ضد کرنے کے باوجود ان کوہتھیار کھلونے خرید کرنہیں دیتے تو بچوں کی ضد دیکھ کر دادا، دادی، نانا، نانی، چچا، یا پھر تایا ابویہ کہہ کر بچوں کوخرید دیتے ہیں کہ اتنی سی چیز کے لئے ہمارے بچے کیوں ترسیں؟
گائوں اور دیہی علاقوں میں رہنے والے بھی اس اسلحہ کلچر سے محفوظ نہیں ہیں فرق صرف اتنا ہے کہ دیہاتی علاقوں میںیہ کھلونے زیادہ ترعید یا کسی بزرگ کے عرس کے موقع پر دستیاب ہوتے ہیں،اس لئے عام دنوں میں دیہاتی والدین کی جیب بھی بچ جاتی ہے اور بچے بھی اسلحہ کلچر سے کچھ دور رہ جاتے ہیں۔ ایک سروے رپورٹ کے مطابق گزشتہ دو دہایئوں سے عید، شب برات اور دیگر تہواروں پر بچوں میں جوتوں ،کپڑوں، شوخ رنگ چشموں اور گھڑیوں کے ساتھ ساتھ کھلونا ہتھیاروں کی خریداری کا رجحان تیزی سے پروان چڑھ رہا ہے۔ جیسا کہ ہم دیکھتے ہیں ہمارے گھر، گلی محلے میں اکثر بچے اصل جیسی نظر آنے والی کھلونا پستولوں، کلاشنکوفوں، بندوقوں ٹینکوں سے لیس کھیل کھیل میں ایک دوسرے پر فائرنگ کرتے نظر آتے ہیں۔ اس وقت بچوں کی چال ڈھال اور چہروں کے تاثر دیکھ کر صاف اندازہ ہوتا ہے کہ بچے اپنے آپ کو فوجی، پولیس مین یا پھر دہشتگرد کے کردار میں ڈھال کر اپنے کھیل میں مصروف ہیں۔
Video Game
ماضی میں ہمارے بچوں کے ہاتھوں میں ہمارے تہذیب و تمدن کے لحاظ سے امن کی علامت رکھنے والے روایائتی کھلونے ہواکرتے تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میںپانچ سالوں میں کھلونا ہتھیاروں کی فرخت میں 70 سے 80 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ اس سال عید الفطرکے موقع پرچین سے تقریبا 7 کروڑ سے زائد مالیت کے کھلونا ہتھیار درآمد کئے گئے۔ کراچی میںکھلونا ہتھیاروں کے دس بڑے تاجر بازار کی ڈیمانڈ کے مطابق خصوصی آرڈرپر یہ ہتھیار جن میں ٹی ٹی پستول، کلاشنکوف، ریوالور، ایل ایم جی، لیزر گنیں، رپیٹراور دیگر ہتھیار شامل ہیںچین سے درآمد کر کے بازار میں سپلائی کرتے ہیں۔ مستقبل کے معماروںکے ہاتھوں میں قلم، کتاب اور رویائتی کھلونوں کی بجائے خطرناک ہتھیار کھلونے دے کر ہم معاشرے میں جن رجحانات کو جنم دے رہے ہیں وہ کسی بھی امن پسند معاشرے اور ریاست کے لئے کسی بھی لحاظ سے مناسب نہیں۔
کھلونا ہتھیار نہ صرف نفسیاتی طور پر بچوں پر برے اثرات مرتب کرتے ہیں بلکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ کھلونا ہتھیاروں کی بچوں میں مقبولیت معاشرے میںعدم برداشت اور شدت پسندانہ رویوں کو جنم دیتی ہے۔ کھلونا ہتھیاروںمیں گولی کی جگہ استعمال ہونے والے چھرلے کئی فٹ تک اپنے ہدف کو نشانہ بناکر زخمی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان چھرلوں سے اب تک سب سے زیادہ نقصان آنکھوں کا ہوا ہے ۔ہتھیار وں سے لیس بچوں کی آپسی لڑائی اگرچہ کھیل ہی ہوتی ہے لیکن اس کھیل میں اب تک کئی بچوں کی آنکھوں میں چھرلے لگنے سے اُن کی بینائی ضائع ہو چکی ہے ۔جدید ہتھیاروں سے لیس کسی فلم، ڈرامے، دودھ، صابن کی مشہوری میں دیکھایا جانے والا کمانڈریا ویڈیو گیم کا ہیرو بچوں کے معصوم ذہنوں پر ایسے نقوش چھوڑتا ہے جن کو مٹانابہت مشکل کام ہے۔
Toy Weapons
والدین اور اساتذہ بھی بچوں کو کوئی بات منوانے کے لئے اکثر یہ بات کہتے ہیں کہ اگر آپ نے بھی کمانڈر صاف صاف بننا ہے تو یہ کام کیا کرو، یہ کھایا کرو اور یہ پڑھا کرو۔ ہمارے بچے اکثر کمانڈر صاف صاف یا چھوٹا بین بن کر اڑنا چاہتے ہیں بڑے بڑے خیالی جنوں، چڑیلوں اور کڑماڑوں کے ساتھ زور آزمائی کرتے نظر آتے ہیں۔ہم اپنے بچوں کواچھے سکول اور مدرسوںمیں پڑھنے بھیج کر فکر محسوس کرتے ہیں،اُن کو ٹیلی ویژن اور کمپیوٹر تک رسائی دے کر معاشرے میں پھیلی بُرائیوں سے محفوظ کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن ان سکولوں اور مدرسوں میں غیر تربیت یافتہ اساتذہ کے ساتھ ساتھ اسلحہ سے لیس کمانڈر صاف صاف کی تصویر یںبطور ہیرو دیواروں پر لگی ہوتی ہیں اور گھروں میں ٹیلی ویژن اور کمپوٹر پر بھی وہی کردار بچوں کے دل کوبھاتے ہیں ۔
یہی وہ حالات ہیںجو مستقبل کے معمار معصوم بچوں کے خیالات کو حقیقت کی دنیا سے دور اور اسلحہ سے لیس طلسماتی دنیا کے قریب تر کر رہے ہیں۔ بچے حقیقت میں کمانڈر صاف صاف اور چھوٹے بین کی طرح ہوا میں اڑنا چاہتے ہیں، انہیں کی طرح چلتے، بولتے اور اُٹھتے بیٹھتے ہیں ۔عام طور پر والدین اپنے بچوں کاکمانڈر صاف صاف بننے کاشوق پورا کرنے کے لئے انہیں کھلونا ہتھیار خرید کردے دیتے ہیں لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ کمانڈر صاف صاف صرف ایک کارٹون ہے جو ہوا میں اڑتا ہے اپنے جسم سے ہزاروں گنا بڑی چیزوں کو اٹھا کر ایک سے دوسری جگہ منتقل کردیتا ہے جبکہ ہمارے بچے کارٹون،کسی فلم، ڈرامے یاکسی ویڈیوگیم کا فرضی کردار نہیں بلکہ ہمارا آنے والا کل ہیں جسے ہم جس قدر حقیقت کے قریب رکھیں گے اتنا ہی بہتر ہو گا۔
Imtiaz Ali Shakir
تحریر: امتیاز علی شاکر: کاہنہ نو لاہور email:imtiazali470@gmail.com,03154174470