ماہِ صیام گزرا، شکرانے کی میٹھی عید آئی اور اپنے ساتھ ہمارے بچپن کی ساری یادیں بھی گھیر لائی۔ گئے دنوں کا سراغ لگاتے ہم اپنے گھرکے آنگن کی اس رنگ رنگیلی شام میں جا پہنچے جہاں ہمیں ہاتھوں پہ لگی مہندی کی لیپ ہی دنیا جہان کی سب سے بڑی نعمت محسوس ہوتی تھی۔ پھر وہ سہانی صبح جب مہندی کے رنگوں کا مقابلہ ہوتا، اماں سویاں کھانے کے لیے پکار پکار کے تھک جاتیںلیکن ہم مہندی مقابلے میں مگن۔اُس زمانے کی سویاں۔۔۔۔؟۔
ہاتھوں کی بنی سویوں کے اوپر شکر کی تہ اور ڈھیروں ڈھیر دیسی گھی، سویاں کھاتے سمے انگلیوں کی پوروں سے ٹپکتے خالص دیسی گھی کی مہکار ہمیں آج بھی یاد ہے۔ گھروالوں سے تو”ڈان”بَن کر عیدی وصول کرتے لیکن عید ملنے کے لیے آئے ہوئے عزیزوں، رشتے داروں کا صرف منہ تکتے اور جونہی کسی”بڑے” کا ہاتھ جیب کی طرف بڑھتا، ہمارے دِل کی دھڑکنیں بے ترتیب ہو جاتیں۔۔
عید کی”کمائی”چوری چوری گننا اور بار بار گننا، ہمیں سب ہے یاد ذرا ذرا۔۔۔۔عید کا دِن پلک جھپکتے گزرجاتااورشام کوہماری حالت بقول ناصر کاظمی یوں ہوجاتی کہ ہمارے گھرکی دیواروںپہ ناصر اُداسی بال کھولے سورہی ہے
جب تھوڑے بڑے ہوئے تو عید کے ساتھ”ٹَرو”کا تَڑکا بھی لگ گیا لیکن بات یہیں نہیں رکی بلکہ کچھ عیدیں گزرنے کے بعد ٹروکا بھائی”مَرو”بھی آگیا اور عیدالفطر بھی عید الاضحیٰ کی طرح تین دِن کی ہوگئی ہم تو چاند رات پر ہمجولیوں کے ساتھ مِل کے گھر کے آنگن میں بیٹھ مہندی لگایا کرتے تھے لیکن نسلِ نَوبازاروں کا رُخ کرتی ہے اوروہ طوفانِ بدتمیزی پیدا ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔بازاروںمیںتِل دھرنے کی جگہ نہیں بچتی اور منچلے گھروں میں واپسی کی راہ بھول جاتے ہیں۔
یہ ہنگامہ فجرتک جاری رہتا ہے اورگھرآ کرنسلِ نَویوںبے سُدھ ہوتی ہے کہ پھرکہاںکی نمازِ عید۔اب کی بارحکومت نے عید پر ڈھیروں ڈھیر چھٹیاں کر دیں اور مَنچلوں نے یوں مزے اُڑائے کہ سینکڑوں”وَن ویلنگ”کرتے ہوئے ہسپتالوں میں جا لیٹے اور کراچی میں چالیس افراد کو سمندر کی لہریں چاٹ گئیں۔ تفریحی مقامات کا یہ عالم کہ مری اور نتھیا گلی کی طرف جانے والی ساری سڑکیں”جام”ہو گئیں اور تفریح کے لیے آنے والوں کو راتیں سڑکوں پر گزارنی پڑیں۔
صرف مری میں پچاس ہزار موٹر سائیکلیں، ایک لاکھ بیس ہزار کاریں اور پانچ لاکھ افراد جا پہنچے۔ یہ سب کچھ اُس وقت ہواجب ہمارے جری جوان قُربانیوں کی لازوال داستانیں رقم کررہے ہیں اور دَس لاکھ آئی ڈی پیز کیمپوں میں بے یارومددگار۔ جب ارضِ فلسطین طاغوت کے پنجۂ استبداد میں ہے اور غزہ کی سرزمین پر آسودۂ خاک میرے آقاۖکے جدِ اکبر کی لحدپکار پکار کے یہ کہہ رہی ہے کہ بجھی عشق کی آگ اندھیرہے مسلماں نہیں،راکھ کا ڈھیرہے
Imran khan
لوگ کہتے ہیں کہ جیسے کپتان کے لانگ مارچ سے گھبرا کر حکومت نے اسلام آباد فوج کے حوالے کر دیا، ویسے ہی لوڈشیڈنگ سے گھبرا کر اتنی چھٹیاں کر دیں۔ اِن چھٹیوں کا اگر کوئی فائدہ ہوا تو بَس یہی کہ”مَرجانی”لوڈشیڈنگ سے چھٹکارا مِل گیا۔ ہفتہ بھر ہونے کو آیا بجلی اپنے قدموں پہ جمی کھڑی ہے اور ہم پریشان کہ اتنا بِل کون ادا کرے گا؟۔ہمیں یقین ہے کہ لوڈشیڈنگ میں یہ حیران کُن کمی ہمارے کپتان کے”آزادی مارچ”کی وجہ سے ہے لیکن ہمارے کپتان صاحب نے تو صاف کہہ دیا ہے کہ”اب تخت گرائے جائیںگے،اب تاج اچھالے جائیںگے۔
خواجہ سعد رفیق کہتے ہیں کہ 13 اگست کی شام تک مذاکرات کی کوشش کی جائے گی لیکن کپتان نے کہا ” نون لیگ سے مذاکرات کا دروازہ بندہے،اب 14 اگست کوفیصلہ کُن جنگ ہوگی۔نئے انتخابات کے سوا کچھ قبول نہیںاور مطالبات کی منظوری تک دھرناجاری رہے گا”۔میرے میاںرجعت پسندنون لیگئے ہیں جبکہ ہم ٹھہرے نسلِ نَوکے ترجمان اِس لیے ہمارا اسلام آباد جانا تو بنتا ہے یہ الگ بات ہے کہ پتہ ہمیںبھی نہیںکہ وہاںجا کرکرنا کیا ہے۔ میاں کہتے ہیں کہ اپنا بستر بوریا سمیٹ کراسلام آبادجانا کیونکہ تمہیں وہاں پونے چار سال تک بیٹھنا پڑے گا۔ہم نے وجہ پوچھی تواُنہوں نے کہا اگلا الیکشن اتنی دیر بعد ہی ہے۔
۔ہم نے کہااگرمولانا قادری دو گھنٹوں میں انقلاب لا سکتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟۔ اب تومولانا صاحب بھی”اندر کھاتے”ہمارے ساتھ مل چکے ہیں اِس لیے اِن طوفانوں کا رخ کوئی نہیں موڑ سکتا۔میاں نے کہا مولانا قادری بھی”ڈی چوک”میں دیہاڑی دارمزدوروں، سکول ٹیچروںاور اُن کے خاندانوں کو ساتھ لے کر انقلاب لانے آئے تھے۔ دیہاڑی دار تو اگلے دِن ہی کھسک لیے اور بھاگ ٹیچر بھی جاتے خواہ اُنہیں نوکری سے ہاتھ ہی کیوں نہ دھونے پڑتے لیکن پیپلزپارٹی نے کچھ جلدی کر دی اور مولانا اپنے انقلاب میں نئی”پھَکی”شامل کرنے کینیڈا سدھار گئے۔
یاد رکھو خاں صاحب کے 90 فیصد سے زیادہ حمائتی”بَرگر فیملیز”سے تعلق رکھتے ہیں۔ وہ تو”منرل واٹر”بھی طو ہاََ وکر ہاََہی پیتے ہیں، بھلا اسلام آباد میں بے یارومددگار کتنی دیرٹِک سکیں گے؟۔ اُنہوں نے کہا کہ ویسے تو خاں صاحب کے لیے سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری اور ارسلان افتخار ہی کافی ہیں جو خاںصاحب کا سارا کچاچٹھاکھولنے کے درپے ہیںاورشنیدہے کہ اب تو وہ انتیسویں روزے پر خاں صاحب کا چوکڑی مار کر آئی ڈی پیز کے ساتھ لنچ تناول فرمانا بھی اپنے کیس کا حصّہ بنا رہے ہیں۔
کیونکہ جب پورے پاکستان کا روزہ تھا تو خاں صاحب سرِ عام کھاتے پیتے نظر آئے اور ساتھ بیٹھے ابرارالحق صاحب ایک آنکھ دبا اور ہاتھ لہرا کر کھا نے کی تعریف کرتے پائے گئے جو آرٹیکل62/ 63کی صریحاََ خلاف ورزی تھی۔ اگر خاں صاحب آئی ڈی پیز کے ساتھ عید منانا چاہتے ہی تھے تو روزہ رکھ کر بنوں جاتے اور آئی ڈی پیز میں تحائف تقسیم کر کے واپس آ جاتے۔
رمضان شریف کے آخری روزے کے دوران دعوت اُڑانے کی کیا تُک تھی؟۔ہم نے کہا اگر نواز لیگ ہمارا چار حلقوں کا مطالبہ تسلیم کر لیتی تویوں”وَخت”میں تونہ پڑتی۔ میاںنے کہا کہ اِس نعرے سے قوم کو تو بیوقوف بنایا جا سکتاہے لیکن کسی عقیل وفہیم کو نہیں۔اگر ملک میں آئین نامی کوئی چیز ہے تو پھر یہ بھی عین حقیقت ہے کہ آئین کی روسے حکومت خاں صاحب کا یہ مطالبہ تسلیم نہیں کرسکتی کیونکہ حکومت الیکشن کمیشن کے اختیارات میں مداخلت کر سکتی ہے نہ عدلیہ کے اختیارات میں اور چار حلقوں میں انگوٹھوں کے نشانات کی تصدیق کا اختیار یا تو الیکشن کمیشن کے پاس ہے یا پھر عدلیہ کے۔
ہم نے کہا کہ آپ اپنی ارسطو انہ باتیں اپنے پاس ہی رکھیں، ہم تو انقلاب لانے چلے ہیں اور تبھی لوٹیں گے جب انقلاب آ جائے گا اور اگر کسی نے ہمارے انقلاب کی راہ میں رکاوٹ کھڑی کرنے کی کوشش کی تو ہماری سونامی اسے خس و خاشاک کی طرح بہا لے جائے گی۔ میاں نے کہا کہ انقلاب تو خیر کیا آئے گا البتہ”پھینٹی”کے امکانات روشن ہیں اور یہ توتم جانتی ہی ہوگی کہ نواز لیگ کو اور کچھ آئے نہ آئے”گیدڑکُٹ”کی بہرحال وہ ماہرہے۔
کَج بحثی سے ہمیں ہمیشہ نفرت رہی ہے جبکہ میرے میاں نے تو کج بحثی میںپی ایچ ڈی کررکھی ہے اِس لیے ہم نے اُن سے مزید سَر کھپانا مناسب نہ سمجھا اور نہ ہی اُن کی کڑوی کسیلی باتوں سے ہمارے پایۂ استقلال میں لغزش آئی کیونکہ ہم اپنے لیڈر کے سچے پیروکار ہیں۔و ہ بھی جب ایک فیصلہ کر لیتے ہیں تو پھر”زمیں جنبدنہ جنبد، گُل محمدنمی جنبد۔ ہم نے حکومت کو بہت وقت دے کے دیکھ لیا لیکن عجزونیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر دامن کواس کے آج حریفانہ کھینچئے