عیدالفطر گزر چکی’ امسال عیدان حالات میں گزری کہ پوری دنیا میں مسلمان عید کی خوشیاں منارہے تھے اور مظلوم فلسطینی غاصب اسرائیلی فوج کی بمباری سے شہید ہونے والے معصوم بچوں کے لاشے اٹھا کر قبرستان آباد کر رہے تھے۔ عید کے ان ایام میں میڈیا پر چھوٹے چھوٹے بچوں کی دل دہلادینے والی تصاویراور ان کی مائوں و باپوں کے بہتے آنسواور سسکیاں دیکھنے کو ملتی رہیں جس پر بلاشبہ مسلم حکمرانوں کو چھوڑ کر پوری امت مسلمہ میں شدید غم کی کیفیت رہی۔نبی مکرم ۖ کی حدیث ہے کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں’ ایک حصے کو تکلیف پہنچے تو پورا جسم بے چین ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ اپنے سینے میںدرد دل رکھنے والے لوگ ایک دوسرے کو عید کی مبارکباد دیتے ہوئے بھی مظلوم فلسطینی مسلمانوں پرڈھائے جانے والے بدترین ظلم و بربریت پر آنسو بہاتے نظر آئے۔دنیا بھر میں اس وقت ساٹھ کے قریب مسلم ممالک ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو بے پناہ وسائل اور فوجی قوت سے نواز رکھا ہے مگر افسوس کہ وہ امریکہ و یورپ کی ناجائز اولاد ایک چھوٹے سے ملک اسرائیل کا ہاتھ روکنے کے قابل نہیں ہیں۔ یہ پوری مسلم امہ کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔
اسرائیل کی جارحیت ہے کہ دن بدن بڑھتی جارہی ہے۔ وہ مساجد و مدارس، اسکولوں و ہسپتالوں سمیت ہر جگہ بمباری کر رہے ہیں اور اب حماس کے ہاتھوں اپنے فوجی افسر کے مبینہ اغوا کا شور مچا کراس نے درندگی کی انتہا کر دی ہے۔پچھلے دو دنوں میں سینکڑوں فلسطینیوں کو شہید کر دیا گیا ہے۔ پورا غزہ اس وقت کھنڈر کا منظر پیش کر رہا ہے۔ اسرائیلیوں کی طرف سے گرائے گئے فاسفورس بموں سے اس قدر تباہی پھیلی ہے۔
شہید ہونیو الوں کی شناخت مشکل ہو رہی ہے مگر امریکہ اوریورپ جو بدترین جنگی جرائم پر مکمل خاموشی اختیار کئے ہیں ایک اسرائیلی فوجی افسر جس کی گرفتاری سے حماس نے مکمل طور پر لاتعلقی کا اعلان کیا ہے ‘ کے اغوا کی خبروں پراس کی انسانی بنیادوں پر رہائی کی اپیلیں کر رہے ہیں۔یہ ڈھٹائی اور بے شرمی کی انتہا ہے۔ انہیں آٹھ جولائی سے جاری صیہونی جارحیت کے نتیجہ میں دوہزار سے زائد فلسطینیوں کی شہادت، مساجدومدارس کے انہدام، اسکولوں، گھروں اور ہسپتالوں کی تباہی وبربادی کی کوئی پرواہ نہیں اور نہ ہی اس پر انہیں کسی بات کا کوئی افسوس ہے مگر ایک یہودی فوجی کی زندگی کی بہت فکر ہے۔
اس سے ان کے دہرے معیار اور مسلمانوں سے متعلق پالیسیوں کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔اسرائیلی بربریت کے خلاف مسلمان ملکوں کی طرح انصاف پسند غیر مسلم کمیونٹی کی جانب سے بھی مختلف ملکوں میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے جارہے ہیں۔انسانی حقوق کے بعض عالمی ادارے اور ریلیف سرگرمیاں سرانجام دینے والی تنظیمیں بھی اسرائیلی بربریت اور خوفناک مظالم دیکھ کر خاموش نہیں رہ سکیں اور اس بات کو واضح طور پر تسلیم کیاجارہا ہے کہ اسرائیلی فوج دانستہ طور پر فلسطینی بچوں کو نسل کشی کر رہی ہے اوربم دھماکوں و فضائی حملوں کے ذریعہ معصوم بچوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔
جس پر یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ جنگی طیارے، بمباری، ٹینک اور لاشیں غزہ کے بے گھر بچوں کا مقد ر بن کر رہ گئی ہیں۔ والدین اپنے بچوں کی لاشوں پر ماتم کناں ہیں۔ جو معصوم بمباری سے بچ گئے ہیں وہ سخت خوف کی حالت میں ہیں۔ ایک عالمی ادارے کی رپورٹ کے مطابق روزانہ گیارہ بچوں کو نشانہ بنایاجارہا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہر روز شہید کئے جانے والوں بچوں کی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ان سانحات پر انٹرنیشنل میڈیا اور بی بی سی جیسے نام نہاد غیر جانبدار اداروں کی رپورٹنگ کی یہ حالت ہے کہ لندن میں ہزاروں افراد نے بی بی سی لندن کے مرکزی دفتر کے باہر سخت احتجاج کیا اوران کی رپورٹس کو توازن سے عاری اور سیاق و سباق سے ہٹ کر قرار دیا۔
Palestinians
فلسطینیوں سے یکجہتی کا اظہار کرنے والے چودہ ہزار سے زائد شکایت کنندگان نے ایک آن لائن پٹیشن بھی دائر کی جس کا بنیادی نکتہ براڈ کاسٹرز سے اس اپیل پر مبنی ہے کہ غزہ پر مسلط کی گئی جنگ کے حوالہ سے اپنی کوریج انصاف کے تقاضوں کے مطابق کی جائے۔ اسی طرح کے مظاہرے گلاسکو، برسٹل اور دیگر یورپی شہروںمیں بھی کئے گئے ہیں جس سے اسرائیلی مظالم اور امریکہ و یورپ کی طرف سے یہودیوں کی بے جا حمایت پران کے اپنے معاشروں کے انصاف پسند لوگوں میں پائی جانے والی بے چینی دیکھی جاسکتی ہے بہرحال اس وقت پوری مسلم امہ ایک ہیجانی کیفیت سے گزر رہی ہے۔
وطن عزیز پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ایٹمی قوت ، بہترین فوج اور وسائل سے نواز رکھا ہے ‘ اس لئے ہر کسی کی نگاہیں پاکستان کی جانب لگی ہوئی ہیں۔ ویسے بھی ساری دنیا جانتی ہے کہ کلمہ طیبہ کی بنیاد پر حاصل کئے گئے ملک کی خارجہ پالیسی میں اسرائیلی بربریت کو روکناروز اول سے شامل ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح نے قیام پاکستان سے قبل بھی واضح طور پر کہا تھا کہ اسرائیل نہتے فلسطینیوں پر جارحیت سے باز نہ آیا تو اس خطہ کے مسلمان اس کا ہاتھ روکنے کیلئے عملی کردار ادا کریں گے۔ اس کے بعد بھی مظلوم فلسطینیوں پر جب کبھی کڑا وقت آیا پاکستان نے ہمیشہ ان کے حق میں آواز بلند کی ہے۔
اس لئے ہزاروں فلسطینیوں کی شہادت کے باوجود محض ایک آدھ مذمتی بیان دے دینا کافی نہیں ہے۔ جماعةالدعوة کے سربراہ حافظ محمد سعید جنہوںنے اتوار کو چوبرجی چوک سے مال روڈ تک تاریخی یکجہتی فلسطین کارواں اور عظیم الشان جلسہ عام سے مظلوم فلسطینیوں کے حق میں ملک گیر تحریک کا آغاز کیا ہے’ کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف مسلم لیگ کے سربراہ ہونے کے ناطے قائد اعظم اور ان کی جماعت کے وارث ہیں۔ انہیں اس انتہائی حساس موقع پر ذوالفقار علی بھٹو کی طرح مسلم ممالک کی اسلامی سربراہی کانفرنس بلا کر مشترکہ لائحہ عمل وضع اور پورے عالم اسلام میں بیداری و اتحاد کی زبردست قوت کھڑی کرنی چاہیے۔ مظلوم فلسطینی مسلمانوں نے پاکستان اور اس کی فوج کا نام لیکر انہیں مدد کیلئے پکارا ہے۔
اگرچہ اس وقت پاکستانی فوج شمالی وزیرستان آپریشن میں مصروف ہے اور بیرونی قوتوں نے وطن عزیز پر پراکسی وار مسلط کر رکھی ہے لیکن اس کے باوجود ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستانی فوج اللہ کے فضل و کرم سے اس قابل ہے کہ وہ ان مشکل حالات کے باوجود مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کر سکتی ہے۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ جب کسی علاقہ کے مظلوم مسلمان مدد کیلئے پکاریں توان کی مدد کیلئے پہنچو اور اگر آپ ایسا نہیں کریں گے تو ساری زمین فتنہ و فساد سے بھر جائے گی۔ قرآن کا یہ حکم ایٹمی پاکستان سمیت پوری دنیا کے حکمرانوں کے لئے ہے کہ وہ غزہ کے مسلمانوں کو مظالم سے نجات دلانے کیلئے اپنے فرض کو یاد رکھیں۔یہ پوری امت کے دفاع کا مسئلہ ہے۔
حکومت پاکستان اورتمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کو چاہیے کہ وہ باہمی اختلافات ختم کر دیں۔ غزہ کے مظلوم مسلمانوں کا خون ہمیں پکار رہا ہے۔ سب سیاسی مسئلے بعد میں ہیں’ ہمیں سب سے پہلے اپنے مظلوم فلسطینی بھائیوں کی مدد کرنی چاہیے۔ اگر ہم خود اکٹھے نہیں ہوں گے عالم اسلام کو ہم کیسے اتحاد کی دعوت دے سکتے ہیں؟ امریکہ، اقوام متحدہ اور دیگر یورپی ملکوں و اداروں سے انصاف کی کوئی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔ یو این جیسے ادارے معمولی باتوں کو ایشو بنا کرمختلف ملکوں میں اپنی فوجیں بھجوادیتے ہیں مگر فلسطین میں اسرائیلی بربریت روکنے کیلئے فوج بھیجنے کی بجائے۔
اس کے ذمہ داران دنیا کو رو کر دکھا رہے ہیںمگر انہیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ایسے ڈرامے کر کے اب وہ دنیا کی آنکھوں میں دھول نہیں جھونک سکتے۔ جماعةالدعوة کی طرف سے مظلوم فلسطینیوں کی مددوحمایت اور حکمرانوں پر دبائو بڑھانے کیلئے شروع کی گئی ملک گیر تحریک انتہائی خوش آئند ہے۔ حافظ محمد سعید کی جانب سے آٹھ اگست جمعہ کو بھی پانچوں صوبوں و آزاد کشمیر میں ہر ضلع اور تحصیل کی سطح پر احتجاجی مظاہروں اور ریلیوں کے انعقاد کا اعلان کیا گیا ہے۔
Jamaat e Islami
ان پروگراموں میں ملک بھر کی مذہبی و سیاسی قیادت کو شریک کیا جارہا ہے جس سے ان شاء اللہ دنیا تک ایک مضبوط آواز پہنچے گی۔ مظلوم فلسطینیوں کے حق میں جماعت اسلامی نے بھی دس اگست کو اسلام آباد میں بڑے پروگرام کا اعلان کررکھا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ دیگر سیاسی و مذہبی جماعتوں کو بھی اپنی اولین ترجیح مسئلہ فلسطین کو رکھنا چاہیے تاکہ غزہ کی ناکہ بندی ختم اور مظلوم فلسطینی بھائیوں کو غاصب اسرائیل کے بدترین ظلم و ستم سے نجات دلانے کیلئے بھر پور کردار ادا کیا جاسکے۔