دنیا میں معدودے چند لوگ ایسے ہوتے ہیں جو کسی عظیم مقصد کی خاطر جیتے اور اسی کی خاطر مر جاتے ہیں۔ یسے افراد کی زندگی در اصل وہ نظریہ ہوتا ہے جس کا علم انھوں نے تھام رکھا ہو تا ہے۔ نامساعد حالات، مشکلات، موانعات اور ذاتی مفادات کا حصول ان کی راہ کی زنجیر نہیں بنتا کیونکہ وہ دولتِ عشق سے سرفراز ہوتے ہیں۔ اپنے مقصد سے بے پناہ عشق کا جذبہ جب سر چڑھ کر بولنے لگے تو پھر ہر چیز خود بخود سر نگوں ہو جایا کرتی ہے ۔ اگر میں یہ کہوں کہ عشق ایسے آشفتہ سر لوگوں کی روح میں حلول کر کے انھیں نئی دنیا سے روشناس کرواتا ہے
جس پر وہ ساری حیاتی بلا خوف و خطر پہرہ دیتے ہیں تو بے جا نہ ہوگا۔ سچ تو یہ ہے کہ اپنے نظریے کی سچائی کی خاطر وہ کسی کو بھی خا طر میں نہیں لاتے بلکہ پوری قوت سے اپنے نظریات کا اظہار کرتے ہیں کیونکہ ان کا نظریہ ہی ان کیلئے دوامِ زندگی کا نقیب ہوتا ہے تبھی تو وہ اپنے نظریہ کو ہر شہ سے عزیز تر رکھتے ہیں۔مجید نظامی ایسے ہی نابغہ روز گار لوگوں میں سے تھے جھنوں نے نظریہ پاکستان کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا یا اور تا دمِ مرگ اس نظریے سے سرِ مو انحراف نہ کیا۔انھوں نے جو کچھ محسوس کیا اسے ببانگِ دہل کہا۔کسی حکمران کی ناراضگی ،اس کا غصہ اور اس کاجبر کبھی ان کا راہ میں مزاحم نہ ہو سکا۔انھوں نے جو کچھ کہنا تھا وہ کہتے رہے
اس چیز سے بے نیاز کہ دوسرے ان کے بے لاگ افکار پر کس طرح کے تحفظات رکھتے ہیں۔زمانہ طالب علمی سے ہی وہ تحریکِ پاکستان کے متحرک سپاہی تھے۔انھوں نے اپنے قائدین کی جوتیاں سیدھی کیں اور یہ اسی عمل کا فیض تھا کہ نظریہ پاکستان کی حقانیت ان کے دل میں پیوست ہو گئی اور انھوں نے خود کو تحریکِ پاکستان کے لئے وقف کر دیا۔ان کی شبانہ روز کوششیں اور قائد سے قربتوں نے انھیں ایسے سپاہی کا روپ بخش دیا جو سر اٹھا کر چلنے کا ہنر جانتا تھا۔ فیڈ مارشل محمد ایوب کی آمریت میںانھوں نے جس طرح جمہوری روایات کی پاسداری کا فرض نبھایا اس سے پورا پاکستان واقف ہے۔ان کے اخبار نوائے وقت پر بڑا ہی کڑ ا وقت آیا لیکن انھوں نے ایوبی آمریت کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔
جابر سلطان کے سامنے کلمہ حق کہنے کی ان کی اعلی روائت نے انھیں دیکھتے ہی دیکھتے پوری قوم کا محبوب بنا دیا۔ذولفقار علی بھٹو کے دورِ حکومت میں بھی نوائے وقت آزمائشی دور سے گزرا لیکن اخبار نے اپنی پالیسی تبدیل کرنے سے انکار کر دیا۔اپوزیشن کے اخبار کی جو پہچان نوائے وقت کے حصے میں آئی اس نے نوائے وقت کو صحافت کا روشن ستارہ بنا دیا۔غیر جانبدار صحافت کی پہچان کو اپنے خونِ جگر سے سینچا ،اسے قائم رکھا اور اس سلسلے میں حکومتی مخالفت کو در خورِ اعتنا نہ سمجھا۔
،سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ لکھا اور اس سلسلے میں کسی سے کوئی رو رعائت نہ کی۔مجھے اچھی طرح سے یاد ہے کہ مجید نظامی کے ذ اتی دوست میاں محمد نواز شریف بھی بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دینے کیلئے بے تاب ہوتے تو مجید نظامی اس کی بھی مخالفت کیا کرتے تھے لہذا ثابت ہوا کہ نظریات سے وابستگی ان کیلئے ذاتی تعلقات اور رشتوں سے بالا تر تھی۔
Majid Nizami
کشیر کے مسئلے پر مجید نظامی کے نظریات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔وہ قائدِ اعظم کے اس اعلان کو کہ( کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے) اس پر اندھا یقین رکھتے تھے ۔وہ مسئلہ کشمیر کا پر امن حل چاہتے تھے اور اگست ١٩٤٧ کے اعلانِ آزادی کے مطابق کشمیریوں کے حقِ خود ارادیت کے حامی تھے ۔وہ بھارت سے تعلقات کا احیاء اسی صورت میں چاہتے تھے جب وہ کشمیریوں کو حقَ خود ارادیت دینے کے لئے راضی ہوجائے۔تجارت کے لئے تو ساری دنیا پڑی ہوئی ہے۔ لیکن حیران کن بات ہے کہ پاکستانی حکمرانوں کو اپنی بیٹیوں ،بہنوں، مائوں اور بیٹو ں کے قاتل ہی تجارت کے لئے کیوں نظر آتے ہیں۔ جو قوم اپنی غیرت کا سودا کرتی ہے
وہ دنیا میں ذلیل و رسوا ہو جاتی ہے۔ذاتی مفادات قومی غیرت پر سبقت لے جائیں تو قومیں اپنا وقار اور م مقام کھو دیتی ہیں۔بھارت پاکستان کا ہمسایہ ہے لیکن اس کے معنی یہ کہاں ہیں کہ بھارت ہمارے نو نہالوں کے سینوں میں خنجر اتارے اور ہم پھر بھی اس کی چاپلوسی کرتے رہیں اور اس سے محبت کی پینگیں بڑھاتے رہیں۔ہمیں بھارت کو احساس دلانا چائیے کہ ہم کشمیر میں اس کے ظلم و ستم کے خلاف ہیں اور ان مظلوم کشمیریوں کے ساتھ ہین جھنیں بھارتی فوجی روزانہ اپنی سنگینوں سے ہلاک کر تے ہیں اور انھیں پھر بھی احساسِ ندامت نہیں ہوتا۔
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت جس طرح کی سفاکانہ افعال کی مرتکب ہوتی رہی مجید نطامی نے کمال جرات سے اسے ننگا کیا ۔ایک غیرت مند پاکستانی کی حیثیت سے انھوں نے بھارت کو ہمیشہ للکارا اور اس کی فسطائیت کا پردہ چال کیا۔انھوں نے تجارت کی آڑ میں بھارت نوازی کو کبھی پسند نہیں کیا۔وہ بھارت سے تعلقات کے مخالف نہیں تھے لیکن مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر وہ اس کو نا پسند کرتے تھے۔وہ ایک غیرت مند سپوت تھے اور اس غیرت کا کھلم کھلا اظہار کرتے تھے جو علامہ اقبال کی شاعری میں ا نمول موتیوں کی طرح جگہ جگہ بکھرا ہوا نظر آتا ہے۔
غیرت ہے بڑی چیز جہانِ تگ دو میں۔۔۔پہناتی ہے درویش کو تاجِ سرِ دارا دنیا کو ہے پھر معرکہِ روح و بدن پیش۔۔۔تہذیب نے پھر اپنے درندوں کا ابھارا کمال کی بات یہ ہے کہ وہ دنیا جس میں دولت ایک الہ کا روپ اختیار کر چکی ہے اورپورے عالم کی ساری سرگرمیوں کا محور بنی ہوئی ہے اس میں نظریات کی بات کرنا اب بڑا عجیب سا لگتا ہے ،لیکن یہ سچ ہے کہ اس پر آشوب دور میں بھی پاکستان کی دھرتی پر مجید نظامی جیسے با کمال لوگ موجود تھے جو دولت کی نہیں نظریات کی بات کرتے تھے اور پھر اس پر ثا بت قدمی سے ڈٹ بھی جایا کرتے تھے۔
مجید نظامی اپنے آبائو اجداد کے پیش کردہ تحفے(پاکستان) کی دل و جان سے قدر کرتے تھے اور اس کی خاطر لہو بہانے والوں کو ہمیشہ مان دیتے تھے ۔وہ ان کی قربانیوں اور ان کی جدو جہد کو سلام پیش کرتے تھے۔وہ پاکستان جہاں پر لوگ پلاٹوں، پرمٹوں، ایجنسیوں اور کمیشنوں کی بات کرتے ہوں اور پھر اس کے حصو ل کے لئے دیوانے بنے ہوئے ہوں تو پھر اس ماحو ل میں اگر کو ئی شخص تخلیقِ پاکستان کی غر ض و غائت اور اس کے مقاصد کو کوئی شخص مقصودِ زندگی بنا لے تو اسے فرزندِ پاکستان کا نام ہی دیا جا سکتا ہے۔
مجید نظامی پاکستان کے سچے اور کھرے فرزند تھے کیونکہ انھوں نے اس کی خا طر جان دینے والوں کو کبھی فراموش نہیں کیا تھا۔پچھلے سال میری کتاب (عشقِ لازوال )چھپی اور اس کی ایک کاپی میرے چھوٹے بھائی محمد ظہیر الدین بابر بٹ نے نظریہ پاکستان کے ڈائریکٹر پرو فسر زاہد صا حب کی خدت میں پیش کی تو انھوں نے کتاب پڑھنے کے بعد کتاب کی بہت تعریف کی۔ا نھوں نے کہا کہ یہ کتاب(عشقِ لازوال) نظریہ پاکستان کا احاطہ کئے ہوئے ہے لہذا اس کتاب کی رونمائی نظریہ پاکستان کی ذمہ داری تھی لیکن آپ لوگوں نے ہمیں بتائے بغیر اس کی رونمائی خود کر لی ہے۔اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نظریہ پاکستان سے مجید نظامی کے ادارے کی کیا کمٹمنٹ تھی؟
سچ تو یہ ہے کہ مجید نظامی نظریہ پاکستان کی چلتی پھرتی تصویر تھے تبھی تو وہ ہر لمحہ نظریہ پاکستان کے گن گاتے، اس کی خوشبو پھیلاتے ،اس کا راگ الاپتے،اس کا علم لہراتے اور اہلِ جہاں کو اس کی آفادیت سے اپنا ہمنوا بناتے رہے۔علامہ اقبال اور قائدِ اعظم محمد علی جناح کے سچے سپاہی سے اسی طرح کے کردار، اظہار اور جذبوں کی امید تھی۔قائد کا سچا سپاہی ،اقبال کا بے خوف شاہین اور پاکستان کا قابلِ فخر فرزند تہہِ خاک چلا گیا ہے تو یہ نہ سمجھا جائے کہ اس کی جلائی ہوئی شمع کی لو مدھم ہو جائیگی۔
اقبا ل و قائد کے کروڑوں دیوانے اس شمع کی لو کو اپنے افکار،اپنے خیالات،اپنی جدو جہد ،اپنی محبت ،اپنی چاہت،اپنی لگن اور اپنے اپنے لہو سے روشن رکھیں گئے اور جب تک یہ شمع روشن رہے گی مجیدنظا می کا نام بھی روشن رہے گا کیونکہ نظریہ پاکستان سے محبت کی یہ شمع انہی کی جلائی ہوئی ہے۔