عید سعید مسلمانوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام ہوتی ہیں۔یوں تو سال میں دو عیدیں آتی ہیں جن کو مسلمان بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔سادہ لفظوں میں جن کو چھوٹی اور بڑی عید کہتے ہیں۔ایک اسلامی سال کے آخری مہینے میں آتی ہے اور دوسری ماہ رمضان کے بعد آتی ہے ۔جو یکم شوال کو منائی جاتی ہے۔جسے میٹھی عید بھی کہتے ہیں۔مومنوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے خاص انعام ہوتی ہے۔مسلمان پورے ماہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کا صلہ یکم شوال کو عید الفطرکے طور پر دیتا ہے اور خوشیوں بھرا دن عطا فرماتا ہے۔چھوٹے بڑے جوش و خروش سے اسے مناتے ہیں۔نئے کپڑے سلوائے جاتے ہیں۔دوستوں کو تحائف دئیے جاتے ہیں۔بچوں کی خوشیاں دیدنی ہوتی ہیں۔بڑوں سے عیدی وصول کرتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔لیکن۔۔۔۔
لیکن مسلمانوں کو نجانے کس کی نظر کھا گئی۔نہ کھل کر عید منا سکتے ہیں اور نہ ہی آزاد زندگی بسر کرسکتے ہیں۔خوف کے مارے روز مرتے اور روز جیتے ہیں۔افرتفری کا عالم ہے ہر طرف خوف و ہراس پھیلا ہے۔کوئی مر رہا ہے تو کوئی مار رہا ہے۔پوری دُنیا میں مسلمان ظلمت کا شکار ہیں۔فلسطین کے مسلمانوں کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔
ادھر پاکستانی عید کی خوشیاں منا رہے تھے اور ادھر فلسطینی اپنے پیاروں کے لئے کفن خرید رہے تھے۔پوری دُنیا میں مسلمان ہی کیونکر ذلیل و خوار ہورہے ہیں؟ایک وقت تھا مسلمان پوری دنیا پر حکومت کرتے تھے اوراب ہر جگہ مسلمانوں پر ستم ہورہے ہیں۔کیوں آخر کیوں؟
مجھے 2008کا ماہ رمضان نہیں بھولا۔جب پاکستان کی سرزمین پر قیامت خیز زلزلہ آیا تھا۔دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ زمین کے نیچے دب گئے۔قیامت سے پہلے قیامت کا منظر تھا۔کئی خاندان اجڑ گئے۔کئی یتیم ہوئے ۔کئی بے گھر ہوئے۔تب بھی عید آئی تھی اور خاموشی سے گزر گئی تھی۔میں نے نہیں دیکھا تھا کہ کسی پاکستانی نے وہ عید منائی ہو گی۔ہر کوئی زلزلہ زدگان کی امداد کے لئے بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا تھا۔کوئی راشن کا انتظام کر رہا ہے تو کوئی کمبل اٹھائے چلا آرہا ہے۔جذبوں سے سرشار مسلمان اپنے بھائیوں کے لئے جان کی بازی لگا رہے تھے۔
نجانے کیسے بے حس لوگ ہوں گے جو ان حالات میں عیدیں مناتے ہو ں گے۔میں نے 2008 سے اب تک کوئی عید نہیں منائی۔خاموشی سے عید آتی ہے اور دبے پائوں گزرجاتی ہے۔حالیہ عید بھی ایسی ہی تھی۔ایک طرف فلسطینی شہید ہورہے تھے تو دوسری طرف کراچی کرچی کرچی ہو رہا تھا۔عیدپر خوشی سے لوگ ایک دوسرے کو عیدی،تحائف دیتے ہیں۔پرانی رنجشیں ختم ہو تی ہیں۔نماز عید ادا کرتے ہی گلے مل کر خوشی اور مسرت کا اظہار کرتے ہیں۔
لیکن یہ کیسے اپنے تھے جنہوں نے گفٹ دینے کی بجائے لاشوں کے نذرانے دئیے۔خون کی ندیاں بہائی گئی۔سڑکیں خون آلود ہ ہوئیں۔تیس لوگوں نے جان کا تحفہ (قربانی)دیا۔کیوں آخر کیوں؟کون لوگ ہیں جو کراچی میں امن نہیں چاہتے ۔کراچی کا امن تباہ و برباد کیے ہوئے ہیں۔کراچی ایک عرصے سے حالت جنگ میں ہے۔کئی حکومتیں آئی اور چلی گئی مگر یہاں امن قائم نہ ہو سکا۔آخر اس کے کیا محرکات ہیں؟یہ وہ سوال ہیں جو ہر عام آدمی کے لبوں پر ہیں۔سیاستدان صرف یہاں کے وزٹ کرتے ہیں،عمل درآمد کیوں نہیں ہوتا۔کیا کبھی کراچی میں امن کی فضا قائم ہوگی؟میری آنکھیں امن کو ترس رہی ہیں۔اس ملک کی عوام سے لانگ مارچ کروایا جاتا ہے۔
انقلاب ڈرامے ہوتے ہیں اور اب تو آزادی مارچ کی تیاریاں بھی عروج پکڑ رہی ہیں۔زبردستی عوام کو گھروں سے نکال کر سڑکوں پر جمع کیا جاتا ہے۔دھرنے دیئے جاتے ہیں۔اب تک کتنے سہاگ اجڑ چکے ہیں۔کتنے بچے یتیم ہو گئے ہیں۔کتنی مائوں کی گودیں ویران ہوئیں ہیں۔چھوٹے بڑے سب جانتے ہیں۔امن سب چاہتے ہیں مگر ان درندوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں مدد نہیں کرتے۔
Waziristan
ان حالات میں کون ہے جو عید کی خوشیاں منائے گا۔ایک طرف کراچی شعلوں سے بھڑک رہا ہے تو دوسری طرف پاک افواج کے نوجوان دہشت گردوں کے ساتھ جنگ میں مصروف عمل ہے۔وزیرستان کے باسی نقل مکانی کر چکے ہیں۔وہ روٹی کے لئے ترس رہے ہیں۔پیاس سے ان کے بچے بلبلا رہے ہیں۔بیچارے گھر سے بے گھر ہماری راہیں تک رہے ہیں۔ان کو ہماری ضرورت ہے۔ان کے بچے بھی عید منانے کے لئے بیتاب ہیں۔ان کے چہروں پر اداسیاں ہی اداسیاں ہیں۔یہ کہاں کا انصاف ہے ہم عید کی خوشیاںمنائیں اور وہ سکون سے جی بھی نہ سکیں۔میرے جسم میں گردش کرتا خون کا ایک ایک قطرہ ان پر قربان۔
میں تب تک عید نہیں منائوں گا جب تک ان کے بچوں کو اپنی خوشیوں میں شامل نہیں کر سکتا۔اپنے ملک میں امن کی فضا قائم نہیں ہو جاتی۔میری پاکستان کے ہر عام و خاص سے التجاء ہے کہ بڑھ چڑھ کر ان بے گھروں کی مدد کریں جن کو ہماری اشد ضرورت ہے۔اور تمام سیاسی جماعتوں سے بھی اپیل ہے خداراہ اپنے مفادات کو چھوڑیں پہلے پاکستان بچائیں۔پھر دھرنے دینا،انقلاب لانا،لانگ مارچ کرنا،پہلے پاکستان کو دشمنوں سے محفوظ تو بنائیں۔جب پاکستان میں امن ہو گا تب ہر دن عیداور ہر رات شب برات ہوگی۔اسی لیے تو میں پوچھ رہا ہوں کیا عید آئی تھی۔