پاکستان 1947 میں ایک آزاد ملک کی حیثیت سے وجود میں آیا۔ قبل ازیں یہ ہندستان کے ایک وسیع معاشرے کا حصہ تھا۔ سیاسی، معاشی، معاشرتی اور سما جی حالات و واقعات کے اعتبار سے 1947کے قبل کی تاریخ میں بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کا موازنہ پاکستان کے موجودہ تناظر سے کیا جائے تو حیرت ہوتی ہے کہ صدیاں گزرنے کے بعد ہمارے معاشرے نے وہ ترقی نہیں کی جس کا خواب ہر معاشرہ دیکھتا ہے۔ اور ارتقائی لحاظ سے ہمارا تاریخی سفر دنیاسے بہت پیچھے ہے سا ئنس اور ٹیکنالوجی کے دور اس اثرات کے باوجود ہماری سوسائٹی میں وہ تضادات اب بھی موجود نظر آتے ہیں جو صد یو ں پہلے ہماری سوسائٹی کا حصہ تھے۔
سترہویں صدی کا ہندوستان جہانگیر 1605 سے 1627 عیسوی تک شنشاہ ہند رہا۔ایک ڈچ سیاح پیلسے ا ئرٹ جہانگیر کے دور میں ہندوستان آیا اس نے جہانگیر کا ہندوستان کے نام سے ایک سفرنا مہ ملک لکھا جس کا ارد و ترجمہ ڈاکٹر مبارک علی نے کیا ہے۔ یہ ایک معلوماتی سفر نامہ ہے لیکن اس کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سترھویں صدی کا سفر نامہ پڑھتے ہوئے کہیں کہیں ایسے محسو س ہوتا ہے جیسے آج کے پاکستان کے حالات پڑ ھ رہے ہوں۔ پا نچ صدیاں گزرنے کے بعد بھی معاشرتی تضادات ہمارے ملک کی اکثریت کا مقدر ہیں۔ وہی عدم مساوات، سماجی ناانصافی ، رشوت، بدانتظامی ، عورتوں کے ساتھ غیرانسانی سلوک، رسومات کی بھر مار سب وہی کچھ تو ہے جو جہانگیر کے دور میں تھا۔ پانچ صدیوں کے سفر کے بعد ہم کہا ں کھڑے ہیں ہماری سوسائٹی نے ترقی کی ہے یا وہی جمود طاری ہے۔ آئیے پیلسے ئرٹ کی قلم سے اندازہ لگاتے ہیں۔ یادرہے کہ وہ سترھویں صدی کے ہندوستان کے حالات بیان کرتا ہے جب ہندوستان پر شہنستاہ جہانگیر حکمران تھا اور آ ج اکیسویں صدی ہے۔
ہم پچھلے باسٹھ سالوں سے ایک آزاد اور خودمختار معاشرے کی حیشیت سے زندگی گزار رہے ہیں معاشرتی اور معاشی مماثلت ڈاکٹر مبارک علی کے الفاظ میںپیلسے ائرٹ بنیادی طور پر ولندیزی تجارت کے فروغ کے ضمن میں ہندوستان آ یا تھا۔ ہندوستان میں اپنے قیام کے بارے میں اس نے جو کچھ لکھا اگرچہ اس کا تعلق تجارتی معاملات سے ہے لیکن اس نے جہانگیر کے وقت کی سماجی زندگی کے بارے میں جو کچھ لکھا ہے اس کی تاریخی اعتبار سے بڑی اہمیت ہے۔ اس کی تحریر سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ اس وقت کا معاشرہ بھی آج کی طرح امیر و غریب کے طبقوں میں بٹا ہواتھا ۔ رشوت ، بدعنوانی، ناجائز طریقوں سے دولت اکٹھی کرنا اس وقت بھی حکمران طبقوں کا محبوب مشغلہ تھا غریبوں کے طرز زندگی سے اندازہ ہوتا ہے کہ سلطنت کی شان و شوکت وار دولت محلات اور حویلیوں سے نکل کر اتر کر جھونپڑیوں تک نہ آئی تھی یہی صورت حال موجودہ پاکستان کی ہے۔ جہاں دولت کا ارتکار مٹھی بھر اشرافیہ کے پاس ہونے کی وجہ سے کروڑوں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔
ڈاکٹر مبارک علی مزید لکھتے ہیں کہ جس معاشرے میں غربت مفلسی اور محرومی ہو گی وہاں محروم لوگ تو ہمات میں پناہ لیں گئے اسی لئے آج کی طرح ماضی میں بھی مزار لوگوں کی زیارت کا مرکز تھے۔ کہ جہاں وہ نہ پوری ہونے والی خواہشات کو پورا کرنے کے لئے منیتں مانتے تھے۔ اور جو کچھ گزرے ہوئے کل ہو رہا تھا ۔ آ ج کے محروم لوگ بھی وہی کر رہے ہیں۔ اس لئے ذہین میں یہ سوال آتا ہے کہ کیا ہماری تاریخ کا یہ تسلسل آ ج بھی اسی طرح سے برقرار ہے جیسا یہ ماضی میں تھا۔ تحریر کے بہت سے حصوں کو پڑھ کر یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ باتیں جہانگیر کے عہد کی نہیں بلکہ ہمارے اپنے زمانے کی ہیں۔ تو کیا تاریخ کے اس پورے سفر میں ہمارا معاشرہ ایک ہی جگہ ٹھہرا رہا ہے یا اس میں کوئی تبدیلی بھی آئی ہے۔
جس وقت اہل یورپ ہمارے معاشرے کو جاننے اور سمجھنے کی کوشش میں مصروف تھے۔ اس وقت ہم یورپ اور اس کے معاشرے سے نا واقف تھے ۔ آ ج صورت حال یہ ہے کہ یورپی علماء فضلاء ا کر ہمیں ہماری تاریخ روایات اور اداروں کے بارے میں بتاتے ہیں ۔ یہ تو دور کی بات ہے کہ ہم اہل یورپ کو ان کے بارے میں کچھ بتائیں ۔ اکثر تو ہم اس پر ہی خوش ہوجاتے ہیں کہ ان کی تہذیب اپنے ہی خنجر سے خودکشی کرے گئی ۔ اور اس انتظار میں رہتے ہیں کہ کب اس خودکشی کی خبر آتی ہے۔ اس میں امراء کی دولت مندی، دولت کی رکاوٹ کے طریقے ، رعونت اوربدعنوانیوں کے جو تذکرے ہیں دیکھا جائے تو آ ج کے حالات میں صرف ماحول بدلا ہے۔ ورنہ فرق کوئی نظر نہیں آیا ہے۔
پیلسے ا ئرٹ کے مشاہد ات نہ صرف ماضی بلکہ ہمارے حال کو بھی سمجھنے میں مدد دیں گئے۔ بنیادی طور پر یہ تحریر ایک تجارتی رپورٹ ہے لیکن آنے والی نسلوں کی یہ خوش قسمتی ہے کہ اس نے ان سماجی اور انتظامی سر گرمیوں اور ماحول کا ذکر کیا ہے کہ جن میں تجا رت ہو ا کرتی تھی۔برصغیر کے شہروں کا ذکر کرتے ہوئے اس نے آگرہ، لاہوراور ملتان کا خصوصی ذکر کیا ہے ۔ آ گرہ اس وقت برصغیر ہندوپاک کا دارلحکومت تھا اور آج کل ہندوستان کا مشہور شہر ہے آگرہ شہر کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ شہر کے مکان اور سڑکیں بغیر کسی منصوبے اور پلان کے بنی ہوئی ہیں اس شہر کے دروازے محمد اکبر نے دفاع اور حفاظت کے تعمیر کروائے ہیں اوروہ اب شہر کے درمیان میں آ گئے ہیں اور اس کے آگئے شہر پھیلا ہے وہ موجودہ شہر سے تین گنا ذیادہ ہے۔ )لاہور کی طرح(۔ لاہور کے کے بارے میں پیلسے ائرٹ لکھتا ہے کہ یہ ہندوستان کا مشہور تجارتی مرکز تھا۔ مگر اب تجارت کی پہلی والی صورت اب باقی نہیں رہی ہے۔ کچھ عرصہ سے موجودہ بادشا ہ سا ل کے پانچ یا چھ مہینے لاہو ر میں گزارتا ہے اس کی رہائش کی وجہ سے شہر کی حالت میں بہتری لائی گئی ۔لیکن اس کی یہ ساری شان و شوکت ، شاہی عمارتوں، محلات ، باغات اور شاہی اخراجات کی وجہ سے ہے۔ اس لئے اس کے اشرات بھی محدود ہیں۔ شہر کے ساتھ ہی دریائے راوی بہتاہے۔ یہ کشمیرکے پہاڑوں سے نکلتاہے اور ملتان سے ہوتا ہوا ٹھٹھہ و بھکر کو جاتا ہے اس میں چھوٹی کشتیوں کے ذریعہ تجارتی سامان لیجایا جاتاہے ۔ لاہور سے آگرہ خاس طور سے مقامی تیار کردہ قالین آتے ہیں اس کے علاوہ کابل سے پھل اور قندہاروملتان سے دوسرا سامان آتا ہے۔ آگرہ سے لاہو ر جو مصالہ جات جاتے ہیں کہ و ہ ولندیزی یہا ں پر لاتے ہیں۔ )اب یہ صورت حال ہے کہ دریائے راوی ایک گندے نالے کی شکل اختیار کر چکا ہے اور کشتیوں کے ذریعے تجارت ایک خواب بن کر رہ گئی ہے ملتان کے بارے میں پیلسے ائرٹ لکھتا ہے یہ صوبہ پیداوار کے لحاظ سے انتہائی ذرخیزہے اور یہاں سے تجارتی کافلے قندہار ہوتے ہوئے ایران جاتے ہیں۔ ایران کے ساتھ اس کی تجارت کافی پھیلی ہوئی ہے۔ ملتان کی خصوصیت یہ ہے کہ اس کے قریب تین دریا بہتے ہیں، راوی، جہلم ، اور سندھ۔ دریائے سندھ کشمیر کے پہاڑوں سے نکلتا ہے اور ملتان آتے آتے اس کی موجوں کے بہائو میں تیزی آجاتی ہے۔ ان دریائوں میں ہلکی کشتیاں چلتی ہیں۔ یہاں پر جو شکر تیار کی جاتی ہے اس کشتیوں کے ذریعہ ٹھٹھہ تک لیجایا جاتا ہے۔ یہ شکر لاہور بھی فروخت کے لیے جاتی ہے۔
Heat Weather
موسم، یہاں سال میں تین موسم ہوتے ہیں۔ اپریل، مئی، اور جون میں ناقابل برداشت گرمی ہوتی ہے یہاں تک کہ آدمی کو سانس لینا بھی دشوار ہوتا ہے۔ اس پر مصیبت یہ ہوتی ہے کہ سخت لو چلتی ہے اور ایسامعلوم ہوتاہے کہ یہ جہنم سے نکل کر آرہی ہو۔ اس موسم میں اکشر سخت آندھیاں آتی ہیں کہ جو دن کو اس قدر اندھیراکر دیتی ہیں کہ اس میں کچھ نظر نہیں آتا ہے۔ جون، جولائی، اگست، ستمبر اور اکتوبر کے مہینے بر سات کا موسم لے کر آتے ہیں۔ اس موسم میں کبھی کبھی تو دن رات مسلسل بارش ہوتی رہتی ہے۔ اس موسم میں بھی اگرچہ گرمی ہوتی ہے مگر بارشیں خوشگوار تبدیلی لے آتی ہیں ۔ نومبر ، دسمبر ، جنوری، فروری اور مارچ کے مہینوں میں سردی ہوتی ہے اور موسم اچھا ہو جاتا ہے۔
گوشت کی سپلائی یہاں بھی ہالینڈ کی طرح ہے۔ اگرچہ یہاں پر یہ سستاہے۔ بھیڑیں، بکریاں، تیتر، بطخیں، اور ہرنوںکا گوشت بازار میں ملتاہے۔ چونکہ گوشت کی سپلائی بہت ہے، اس لیے قیمت بھی کم ہے۔ اکثر ہندورشوت دے کر یا سفارش کرکے بادشاہ یا گورنر سے یا ایسا فرمان بھی جاری کرا لیتے ہیں کہ جس کے تحت ایک خاص مدت تک مچھلی پکڑنے پر پابندی عائد کر دی جاتی ہے یا یہ پابندی لگادی جاتی ہے کہ کچھ دنوں تک بازارمیں کسی قسم کا گوشت نہیں بیچا جائے گا۔ اس قسم کے احکامات عام لوگوں کے لیے تکلیف کا باعث ہوتے ہیں، جہاں تک امراء تعلق ہے تو وہ ہر روز اپنی پسند کے جانور گھروں میں ذبح کرتے رہتے ہیں۔ پیداواراس کے بعد اس نے بر صغیر کی پیداوار کے حالات کے بارے میں معلومات فراہم کی ہیں وہ لکھتا ہے کہ ہندوستا ن کی زمین پیداوارکے لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے۔ لیکن یہاں پر کسانوں کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ یہ ملک اس لحاظ سے اچھا ہے کہ یہاں پر کھانے پینے کی چیزوں کی بہتات ہے اور وہ ہمارے جیسے سرد ملک کے لوگوں کی طرح اچھی خوراک سے اپنی تسکین کر سکتاہے۔ لیکن جب گرمیوں کا موسم آتا ہے تو کھانے کی خواہش کم ہو جاتی ہے اور صرف پانی پینے کو دل چاہتا ہے جس کی وجہ سے انسانی جسم کمزور ہو جاتا ہے۔
جہانگیر کے سلسلہ میں ایک اہم بات یہ ہے کہ اس نے اپنی شخصیت کو ختم کر کے خود کو اپنی چالاک بیوی کے حوالہ کر دیا ہے۔ یہ سب کچھ اس لئے ہوا ہے کہ یا تو وہ زبان کی بڑی میٹھی ہے یا پھر اسے شوہر کو قابوں کرنے کے حربے آتے ہیں ۔اس نے اس صورت حال سے پورا پورافائدہ اٹھایا اور نتیجتاُُ اس نے آہستہ آہستہ خود کو بے انتہا مالداربنا لیا ہے۔ اس کے وہ تمام حمایتی جواس کے ساتھ ہیں ، انہیں بھی بے انتہا مراعات سے نوازا گیاہے۔ اس لئے وہ تمام امراء اور مصاحب جو اس وقت بادشاہ کے قریب ہیں۔ وہ سب اس کے آدمی ہیں اور اسی کی سفارش سے ان کو ترقیاں ملی ہیں۔ تمام شہزادوں ، منصب داروں ، اور امیروں کو ان کی حیثیت کے مطابق جا گیریں دی جاتی ہیں کہ جس کی آمدن سے ہو اپنا خرچہ پورا کرتے ہیں۔ان میں کچھ امراء بادشاہ کے دربار میں رہتے ہیں ، اور اپنی جاگیر کا انتظام اپنے کسی معتمد کے حوالے کر دیتے ہیں یا وہ کسانوں یا کڑوی کو دے دیتے ہیں۔ کہ جو اچھی یا خراب فصل پر نفع و نقصان کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ لیکن صوبے اس قدر غریب ہیں کہ ایک جاگیر جس کی آمدن 50’000تصور کرلی جاتی ہے، وہ در حقیقت 25,000مشکل سے وصول کرتی ہے۔ اور یہ بھی اس صورت میں کہ غریب کسانوں کوبا لکل نچوڑلیا جاتاہے اور ان کے کھانے کو خشک روٹی مشکل سے ملتی ہے کہ جس سے وہ اپنا پیٹ بھر سکیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ ان امراء کی لالچ اور طمع کی کوئی انتہا نہیں ہے ہر وقت ان کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ کس طرح زیادہ سے زیادہ دولت جمع کریں چا ہے انہیں لوگوں پر ظلم وستم کرنا پڑے ، یا انصافی سے کام لینا پڑے۔ ہر امیر کی جائداد اس کی آمدن اور اس کی دولت کے بارے میں اس کے دیوان کو پورا پورا پتہ ہوتا ہے کیونکہ وہی اس کی آمدن کا حساب کتاب رکھتاہے اور اسی کے ہاتھوں تمام کاروبار چلتا ہے۔
بادشاہ اور خصوصیت سے ملکہ کا یہ دستور ہے کہ وہ اس سپاہی کو بہت جلد ترقی دے کر اعلی منصب پر فائز کردیتے ہیں۔ چاہے اس کا رتبہ کتنا کم کیوں نہ ہو ۔ بشرطیکہ اس نے وفاداری اور جرات کے ساتھ ان کی خدمت کی ہو اور میدان جنگ میں نمایاں کارنامے کئے ہوں ۔ دوسری طرف کسی کی ذراسی غلطی یا بھول چوک اس آن واحد میں اوپر سے نیچے گرادیتی ہے اور وہ شخص یا تو اپنی دولت و مرتبہ سب کھو دیتا ہے یا اسے پھانسی پر چڑ ھا دیا جاتا ہے۔ اس لئے اس مملکت میں ہر چیز غیر یقنی کیفیت میں دولت، مرتبہ ، محبت، دوستی، اور اعتماد، ہر چیز ایک نازک دھاگے سے اٹکی ہوئی ہے۔ کوئی چیز مستقل نہیں ہے۔ یہاں تک کہ شاندار عمارتیں بھی ۔ باغات ، مقبرے ، اور محلات ، جوہر شہر کے اندر یا قرب و جوار میں واقع ہیں، ان کے بارے میں سو چتے ہوئے انسان غم و اندوہ کے سمندر میں ڈوب جاتا ہے ، کیونکہ یہ ویران و خستگی کی حالت میں کھٹرے ایک المیہ نظر آتے ہیں۔ ان کو جب تعمیر کیا جاتا ہے تو ان پر ہزاروں اور لاکھوں کا خرچہ ہوتا ہے۔ان کی مرمت اس وقت تک کی جاتی ہے کہ جب تک اس کے مالک زندہ رہتے ہیں اور ان کے پاس اتنی دولت ہوتی ہے کہ وہ ان کی دیکھ بھا ل کر سکیں ۔ لیکن جیسے ہی مالک کی وفات ہوتی ہے۔ پھر ان عمارتوں کی جانب کسی کی توجہ نہیں رہتی ہے۔ بیٹا اپنے باپ کے کام کو نظر انداز کرتاہے ماں بیٹے کے، بھائی اور دوست دوسرے کی عمارتوں کی کوئی دیکھ بھال نہیں کرتے ہیں۔ ہر ایک کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے لئے کوئی نئی عمارت تعمیر کرائے اور اپنے آبائواجداد کی روش پر چلتے ہوئے علیحدہ سے اپنی شہرت اور نام کو بڑھائے ۔ اس لئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اگر ایک صدی تک ان عمارتوں کی مرمت کی جائے ، ان کی دیکھ بھال کی جائے ، تو ہر شہر اور ہر گائوں میں شاندار عمارتیں نظر آئیں ۔ لیکن صورت حال یہ ہے کہ آپ جب سفر کریں تو آپ کو شاہراہوں پر اور شہروں سے باہر ٹوٹی عمارتوں کے ڈھانچہ اور ان کا گرا ہوا ملبہ اور اس کے ڈھیر جگہ جگہ نظر آئیں گئے۔ یہاں کے امراء کی دولت اور شان و شوکت ہمارے ہاں کے امراء سے زیادہ ہے جب تک وہ زندہ رہتے ہیں۔ اپنے با غات سے لطف اٹھاتے ہیں جب یہ مر جاتے ہیں یہیں با غات ان کی قبریں بن جاتی ہیں ۔سرکاری اعمال کا عوام کے ساتھ سلوک اکبرکے دور حکومت میں تجارت کو بڑا فروغ تھا، یہ صورت حال موجود بادشاہ کے ابتدائی عہد میں بھی رہی ، کیونکہ اس وقت تک اس میں تازگی و توانائی اور حکومت کرنے کا سلیقہ تھا۔ لیکن جب سے اس نے خود کو لہو و لعب میں مبتلا کر لیا ہے، اس وقت سے عدل وانصاف کی جگہ ظلم و ستم و تشدد نے لے لی ہے۔ اگرچہ ہر گورنر کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے عوام کی حفاظت کرے، لیکن اس کے برعکس ہو یہ رہا ہے کہ ہر گورنر مختلف حیلوں، بہانوں سے لوگو ں کو لوٹ رہا ہے اور ان کی ذرائع آمدن پر قابض ہو رہا ہے۔ کیونکہ وہ اس بات سے اچھی طرح واقف ہوتے ہیں کہ ان غریب لوگوں کی پہنچ نہ تو دربار تک ہے اور نہ ہی یہ بادشاہ تک اپنی شکایات پہنچا سکتے ہیں۔ نتیجہ ان سب باتوں کا یہ ہوا ہے کہ ملک تباہ ہو گیاہے، لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں۔
Poor People
قانون جہاں تک اس ملک میں قانون کا تعلق ہے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہا ں کوئی قانوں نہیں ہے۔ انتظام سلتنت میں مطلق العنانیت ہے، لیکن قانونی کتابیں ضرورہیں کہ جو قاضی کے پاس ہوئی ہیںان قوانین کے تحت سزائوں میں ہاتھ کے بدلے ہاتھ اور آنکھ کے بدلے آنکھ لینے پر عمل ہوتا ہے۔ لیکن جیسا ہمارے ہاں ہے وہ کو ن ہے کہ جو پوپ کو عیسائیت سے نکالاس طرح یہا ں کسی کی مجال نہیں کہ وہ صوبہ کے عامل سے یہ سوال پوچھ سکے کہ “تم ہم پر اس طرح کیوں حکومت کرتے جبکہ ہمارا قانون تو یہ مطالبہ کرتاہیانصاف اور عدالتیں انصاف کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ، ہر شہر میں کچہری یا عدالت لگتی ہے کہ جہاں عامل ، دیوان ، منشی ، کوتوال ، اور قاضی یہ سب موجود ہوتے ہیں۔ یہ اجلاس یا تو روز ہوتے ہیں ، یا ہفتہ میں چار روز، یہا ں پر تمام مقدموں کا فیصلہ کیا جاتا ہے، لیکن ان فیصلوں اپنے حق میں کرانے کے لئے رشوت سے کام لینا پڑتا ہے۔ قتل ، چوری وغیرہ کے مقدمات کا فیصلہ گورنر یا عامل خود کرتا ہے۔ اگر مجرم غریب ہوں اور رشوت دینے کے قابل نہ ہوں تو انہیں پھانسی دیدی جاتی ہے۔ اگر وہ دولت مند ہو ں تو ایسے لوگوں کے لئے سزائے موت پر عمل درآمد نہیں ہوتا ہے۔ اس جرم کی سزا کے طور پر ان کی جائداد کو ضبط کر کے گورنر یا کوتوال کے حوالہ کر دیا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں ججوں اور عہدے داروں کو ہی قصور وار ٹھہرنا مناسب نہیں ہے کیونکہ وبا پلیگ کی طرح ہر طرف پھیلی ہوئی ہے، چھوٹے سے لے کر بڑے تک یہا ں تک کہ بادشاہ بھی اس میں ملوث ہے۔ ہر شخص دولت کی ہوس میں اس قدر گرفتار ہے کہ اس کی خواہش کبھی پوری ہونے کا نام ہی نہیں لیتی ۔
اس لئے اگر کسی شخص کو عامل سے یا سرکار میں کچھ کا م ہو تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ رشوت کے لئے پیسوں کا بندوبست کرے ۔ بغیر تحفہ تحائف کے لئے اس کی درخواست پر عمل درآمد ہونا نہ ممکن ہے۔ ہمارے عزت ماب لوگوں کو اس پر حیران نہیں ہونا چاہے کیونکہ یہ اس ملک کا رواج ہے۔ طرز رہائش جہاں تک لوگوں کے طرز رہائش اور رہنے کے انداز کا سوال ہے تو امیر لوگوں کے پاس تو بے انتہا دولت اور لا محدود طاقت ہے، لیکن اس کے مقابلہ میں عام لوگ انتہائی غربت اور مفلسی کی زندگی گذارتے ہیں۔ مفلسی کے باعث ان کی حالت یہ ہے کہ ان کے پاس مشکل سے دو وقت کے کھا نے کے لئے کچھ ہوتا ہے۔ ان کی رہنے کی جگہوں یا گھروں کے بارے میں کہا جا سکتا ہے کہ وہ عبرت کا نمونہ ہیں۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ لوگ ان تکالیف کو انتہائی صبر کے ساتھ برداشت کرتے ہیں۔ ان میں مشکل ہی سے کوئی اس بات کی کو شش کرتا ہے کہ اپنی زندگی کو تبدیل کرے اور اپنی موجود ہ حالت کو بہتر بنائے۔سنار ، رنگریز، کشیدہ کاری کرنے والے، قالین بننے والے ، جولاہے، لوہار، درزی معمار، پتھر توڑنے والے، اور اسی طرح سے دوسرے پیشہ ور دست کار و ہنر مند ، یہ اس کام کو جو ہالینڈ میں ایک آدمی کرے چار مل کر کرتے ہیں۔ ایک دوسرا عذاب ان کے لئے گورنر ، امرائ، دیوان ، کوتوال،بخشی اور دوسرے شاہی عہدے داروں کی شکل میں آتا ہے۔ اگر ان میں سے کسی کو کام کروانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ تو وہ کام کرنے والے کو ، چاہے وہ چاہے یا نہ چاہے، زبردستی پکڑکر بلوالیتے ہیں، ایک مزدور یا کاریگر کی یہ ہمت نہیں ہوتی ہے کہ وہ اس پر ذرا بھی اعتراض کرے۔
Employees
ملازموں کی بہتات اس ملک میں چپراسیوں اور ملازموں کی بڑی تعداد ہے۔ ہر شخص کی ملازمت میں ایک یا دو چپراسی ہوتے ہیں چاہے وہ سوار ہو ، یا شاہی عہدے دار۔ ہر ایک اپنی حییشت کے مطابق اپنی خدمت کے لئے ملازم رکھتا ہے۔جس کے پا س جتنے زیادہ ملازم ہوں اس سے اس کی حیثیت کا پتہ چلتا ہے۔ گھر کے اندر یہ گھریلو کام کاج میں مصروف رہتے ہیں کہ جہا ں ہر ایک کو خاص ذمہ داری دی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ ملازموں کی اس قدر تعداد ہوتی ہے کہ انہیں بعض اوقات گننامشکل ہو جاتا ہے۔ بڑے امراء کے گھروں میں ہر ملازم اپنی مخصوص ذمہ داری پوری کرتا ہے۔ ملازموں کی تنخواہیں اکثر پیسے کاٹ کر دی جاتی ہیں۔ چیتے یا تیندوے کے ذریعہ شکار کھیلناہندوستان کا ایک شاندار طریقہ ہے۔ ان جانوروں کو اس قدر سد ھالیا جاتا ہے کہ وہ بلیوں کی طرح انسانوں کے عادی ہو جاتے ہیں۔ ان کی بڑی عمدگی سے دیکھ بھال کی جاتی ہے۔جس کے لئے ہر جانور کے لئے دو ملازم مقرر ہوتے ہیں ۔وہ اس کی اس گاڑی کی بھی دیکھ بھال کرتے ہیں کہ جن میں بٹھا کر انہیں شکار کے لئے لایا جاتا ہے۔ )آج کل باحیثیت لوگ اپنے کتوں کی رکھوالی کے لئیے ملازم مقرر کرتے ہیں اور ان پالتوں جانوروں کا خرچہ ہزاروں روپے روزانہ ہوتا ہے)۔ چھوٹے ملازموں کا عوام کے ساتھ سلوک اگر ان کا ما لک یا آقا کسی اہم عہدے اور منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس صورت میں اس کے ملازم بھی بد تمیز اور مغرور ہو جاتے ہیں۔ یہ معصوم لوگوں پر ظلم ڈھاتے ہیں۔ اور اپنے مالک کی طاقت و اختیارات کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کئی برائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ان میں سے بہت کم ایسے ہیں کہ جو اپنے مالک کی خلوص کے ساتھ خدمت کرتے ہیں۔ اگرچہ اس کے بارے میں ان کے مالک کو اچھی طر ح سے معلوم ہوتا ہے مگر وہ اس لئے خاموش رہتے ہیں کہ یہ غریبوں کو ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس کا بوجھ ان کی جیب پر نہیں پڑتا ہے۔ لیکن یہ ان کی غلطی ہے کیونکہ کمیشن ہمیشہ اس پر دیا جاتا ہے کہ جو وہ خریداری کرتے ہیں اور اس کا بوجھ بہر حال مالک پر ہی پڑتا ہے۔ اگر ملازم یہ سب کچھ نہ کریں تو وہ مشکل سے اپنا اور اپنے خاندان کا گذارہ کر سکتے ہیں۔ اس لئے ان ملازموں اور مزدوروں کی مالی حالت میں کوئی فرق نظر نہیں آ تا ہے دونوں ہی غربت ومفلسی کی زندگی گزارتے ہیں۔ ان کے محلات کی اندرونی آرائش میں شہوت پرستی ، شوخی اور بے ڈھنگے پن کی زیبائش ، سطحی قسم کی شان، بے جا غرور ، مگر ساتھ میں نفیس قسم کے نقش و نگار نظر آتے ہیں۔ ان کے ملازمین ظالم و جابر ، لالچ و طمع سے بھرے ، اپنے آقائوں کی طرح ہر موقع پر لوگوں سے پیسہ اینٹھتے ہیں۔ ایک وقت میں جب کہ امراء سمجھتے ہیں کہ اقتدار کی کرسی پر فائز ہیں اور ان کے مراتب بہت اونچے ہیں، دوسرے ہی وقت میں با دشا ہ کی ذراسی ناراضگی سے یہ ذلت و خواری کی پستی میں گر جاتے ہیں۔ محروم طبقات کا طر ز عمل ُان کے ہاں بھی اسی قدر پیر، فقیرہیں کہ جیسے کیتھولک فرقہ والوں کے ہاں بزرگ اور اولیاء ہیں۔ لیکن یہ لوگ ان کی مورتیاں نہیں بناتے ہیں کیونکہ یہ ان کے مذہب میں ممنوع ہے۔ لیکن یہ بھی ان کی طرح منتیں مانتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جیسے ہر دنیاوی بادشاہ کا اپنا دربار ہوتا ہے۔ اس کے امراء اور عہدے دار ہوتے ہیں جو اپنے اپنے فرائض منصبی ادا کرتے ہیں۔ اور انتظام سلطنت کی دیکھ بھال کرتے ہیں، جیسے بادشاہ تک کوئی بھی اس وقت تک نہیں پہنچ سکتا ب تک اس کی رسائی کسی امیر یا عہدے دار سے نہ ہو ۔ اسی طرح سے خداتک سفارش پہنچان کے لئے بھی اس کے کسی نمائندے کی ضرورت ہے جو اس کی درخواست کو منظور کرائے۔
Poverty
ان مذہبی رہنماوئں کا سحر اور جادو غریب لوگو ںپر نہ صرف ان کی زندگی میں بھی چلتا ہے بلکہ ان کے مرنے کے بعد بھی چالا ک متولی غریب لوگوں کو مسلسل فریب و دھوکے میں مبتلا رکھتے ہیں۔ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ عام لوگوں کو کس طرح سے قابو میں رکھا جائے اس مقصد کے لئے یہ عوام میں ان کی کراماتیں اور عجیب و غریب واقعات کے بارے میں کہانیاں پھیلاتے ہیں کہ جنہیں سن کر لوگ ان کے عقیدت مند ہو جاتے ہیں۔ مندرجہ بالا دلچسپ حا لات ملازہ کرنے کے بعدیہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پانچ صدیاں گزرنے کے باوجود ہمارا معاشرتی اور معاشی ڈھانچہ کوئی خاص تبدیل نہیں ہوااور ہمارے معاشرے کے زمینی حقائق ابھی بھی شہنشاہ جہانگیر کے دور سے مختلف نہ ہیں نہیں معلوم ان حالات کی تبدیلی میں اور کتنی صدیاں لگیں گی لیکن یہ سچ ہے کہ اگر آج کا کوئی مورخ دور جہانگیر کے حالات کے مندرجہ بالاحالات و واقعات کو تھوڑے سے ردو بدل کے ساتھ اکیسویں صدی کے پاکستانی معاشرے پر منطبق کر دے تو یہ غلط نہ ہو گا۔
تحریر: سید منیر بخاری، ڈپٹی سیکرٹری ہوم ڈیپارٹمنٹ پنجاب