تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے انکشاف کیا ہے کہ وزیراعظم کےایک صاحبزادے 7 ارب مالیت کے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جبکہ دوسرا 200 ارب کی کمپنی کا بلا شرکت غیرے مالک ہے۔ یہ انکشاف پاکستان جیسے غریب ملک کے شہریوں کیلئے طلسم ہوشربا جیسا ہےاس وقت دنیا کے کئی ممالک میں پاکستان کے موجودہ حکمران خاندان کا کاروبار پھیلا ہوا ہے میاں نواز شریف اور میاں شہباز شریف فیملی کے پاس ماڈل ٹائون، اسلام آباد اور مری میں بھی محل نما رہائش گاہیں ہیں، جاتی عمرہ رائے ونڈ میں تو کئی مربعوں پر محیط فارم، اور وسیع و عریض گھر ہے۔
یہی حال دوسری بڑی سیاسی پارٹی پیپلز پارٹی کا ہے جس کے چیئر مین بلاول بھٹو زرداری اور انکے والد کی ملکیت کراچی، لاڑکانہ، اسلام آباد، لاہور، دئبی اور فرانس میں عالیشان محلات ہیں جن کی مالیت کھربوں ڈالر بتائی جاتی ہے، خود عمران خان کے پاس لاہور کے علاوہ میانوالی اور اسلام آبادبنی گالہ میں کئی سوایکڑوں پر مستمل محلات ہیں اسی طرح سابقہ ڈپٹی وزیر اعظم چوہدری پرویز الہی اور چوہدری شجاعت کے پاس گجرات، لاہور اور بیرون ممالک میں مہنگے ترین گھرموجود ہیں MQM کے قائدالطاف حسین کے لندن میں بیش قیمت فلیٹس اور شیخ الاسلام طاہرالقادری کی کنیڈا اور لاہور میں عالیشان رہائش ہے اس کے علاوہ وزیروں، مشیروں اور حکومتی عہدیدار کوئی عام لوگ نہیں سب کے سب کروڑ پتی سے کم نہیں یہ کتنی بدقسمتی ہے کہ پارلیمنٹ میں1% بھی کوئی عام شہری نہیں۔
Nawaz Sharif,Shahbaz Sharif
دن رات جمہوریت کی باتیں کرنے والے، آئین وقانون کی حکمرانی کا ڈھنڈورا پیٹنے والے اور عوام سے محبت کے دعویدار ارکان ِ اسمبلی اور سینیٹر سب کے سب امیر،کبیرلوگ ہیںیہی وجہ ہے کہ ان کودر اصل عوام سے کوئی دلچسپی ہے نہ ان کے مسائل سے کوئی غرض۔۔اسی بناء پر لوگ چیختے رہتے ہیں ۔۔۔ بنیادی سہولتوںکو ترستے رہتے ہیں اور باربار دہائی دینے کے باوجود ارکان ِ اسمبلی کے سرسے جوں تک نہیں رینگتی۔۔۔بالفرض عام طبقہ سے کوئی اسمبلی میں پہنچ بھی جائے وہ اتنا بے بس ہوجاتاہے کہ اس کی کوئی سنتاہی نہیں یا پھر نمک کی کان میں جاکر نمک ہو جانا زیادہ پسند کرتاہے۔۔
عوام بھی اپنی کلاس کے کسی امیدوار کو ووٹ نہیں دیتے۔بات یہیںپرختم نہیں ہوتی ملک میںجتنے بھی سیاستدان ہیں ان میں مذہبی، فیوڈل لارڈز،سرمایہ دارہوںیا پھر خانقاہوںسے وابستہ گدی نشین ان میں کوئی تخصیص نہیںکسی کا بھی رہن سہن عام آدمی جیسا نہیںاور نہ ہی انہیں عوام کو جو مسائل درپیش رہتے ہیں ان سے سابقہ پڑتاہے پھر بھی وہ عوام سے محبت کا دم بھرتے ہیں،ان کی نمائیدگی کی بات کرتے ہیں سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستان کی چاروں،پانچوں صوبائی اسمبلیاںہوںیا پارلیمنٹ یا سینٹ اس کے ارکان میں سے کسی کا بھی لائف سٹائل عوام جیسانہیں پھریہ کس بنیادپرعام آدمی کے نمائیدے ہیں؟ ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں یہ سراسر کھلا تضاد، منافقت اور جھوٹ ہے کمال ہے پھر بھی یہ ”جادو” عوام کے سرپربول رہاہے۔
Swiss Banks
عمران خان نے یہ انکشاف تو کیا ہے وزیر اعظم کے ایک صاحبزادے 7 ارب مالیت کے فلیٹ میں رہائش پذیرہیں جبکہ دوسرا 200 ارب کی کمپنی کا بلا شرکت ِ غیرے مالک ہے لیکن حقیقت ہے کہ بہت سے لوگ ایسی ہی درجنوںکمپنیوںکے مالک ہیں ان کے نام بھی کوئی نہیں جانتا، اس کے بارے میں بات ہی نہیں کرتا اب تو یہ بھی سننے میں آرہاہے کہ اس وقت پاکستان کی اشرافیہ کے 100 ارب ڈالر سوئس بینکوں میں پڑے ہوئے ہیں یہ دولت پاکستان جیسے ملک میں انوسٹ کردی جائے تو یہاں سے غربت ختم ہو سکتی ہے لیکن سوال یہ پیدا ہوتاہے اشرافیہ ایساکیونکر کرے گی؟۔۔جو صاحب ِ اختیارہیں پاکستان کا آئین وقانون ان کیلئے موم کی ناک ہے وہ جو چاہیں کرتے پھریں ان کو پوچھنے کی کسی میں تاب ہے نہ مجال۔
یہی لوگ پاکستان اوران کے 20 کروڑ عوام کی تقدیر کے مالک بنے ہوئے ہیں اور مالک بنے رہیں گے اسی لئے یہاں کوئی تبدیلی نہیں آتی کوئی بتا سکتا ہے مولانا فضل الرحمن سے لے کر چوہدری نثار، عمران خان، چوہدری برادران، شریف فیملی، الطاف حسین، طاہرالقادری اور آصف علی زرداری میں سے کون عوام کا حقیقی نمائیدہ ہے دل پرہاتھ رکھ کر اس کا جواب دیں یقینا دل و دماغ گواہی دیں گے ایک بھی نہیں, پھر کیسی جمہوریت۔ کہاں کی آئین وقانون کی حکمرانی عوام سے محبت کے دعوے سب ڈرامہ, جھوٹ, منافقت, پاکستان میں یہی کاروبار خوب پھل اور پھول رہے ہیں کیا آپ نہیں جانتے؟