اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے قرار دیا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 245 کے نفاذ کے باوجود اسے آرٹیکل 199 کے تحت درخواستیں سننے کا اختیار ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق عدالتیں خود اپنے دائرہ اختیار کا تعین کرتی ہیں، مارشل لاادوار میں بھی عدالتیں اپنا کام کرتی رہی ہیں۔
اسلام آباد ہائی کورٹ میں ایک کیس کی سماعت کے دوران وکلاء نے ہائی کورٹ کے اختیارات محدود ہونے اورانسٹی ٹیوشن برانچ کی جانب سے آرٹیکل 199 کے تحت درخواستوں کی وصولی روکنے کی طرف توجہ دلائی، جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں کو معاونت کے لیے طلب کیا۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی دارالحکومت میں فوج کی طلبی کا نوٹیفیکیشن چیف کمشنر کی درخواست پر جاری کیا گیا۔ ہائی کورٹ بار کے سابق صدر سید نایاب حسن گردیزی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اختیارات محدود کرنا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔
جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیے کہ ایک حکومتی نوٹی فی کیشن سے بنیادی حقوق کیسے معطل کیے جا سکتے ہیں؟ فوج طلب کرنے کی وجوہات نہیں بتائی گئیں۔24 جولائی کو جاری نوٹی فی کیشن کے اجراء سے انصاف تک رسائی کے حصول کا راستہ بند ہونے کا غلط تاثر دیا گیا۔ آئین کے آرٹیکل 245 کے نفاذ کو چیلنج کیا جا چکا ہے، معاملہ عدالت میں ہے۔