اسلام آباد (جیوڈیسک) اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا ہے کہ وفاقی دارالحکومت میں ضلعی انتظامیہ کی مدد کیلئے فوج کو طلب کرنے کے باوجود عدالت کے اختیارات کو محدود نہیں کیا جا سکتا اور عدالتیں ملک میں مارشل لاء کی نفاذ کے باوجود بھی کام کرتی رہی ہیں۔
آئین میں دیئے گئے اختیارات کے تحت تمام عدالتیں کام کرتی رہیں گی۔ جج جسٹس اطہر من اللہ کے پاس ایک مقدمے کی سماعت کے دوران وکلا نے عدالت کی توجہ اس جانب مبذول کروائی کہ اسلام آباد میں حکومت کی جانب سے ضلعی انتظامیہ کی مدد کے لئے فوج طلب کرنے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ کی انسٹیٹیوشن برانچ درخواستیں وصول نہیں کر رہی جو بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
عدالت نے متعقلہ حکام کو ہدایت کی کہ وہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق درخواستیں وصول کریں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل اور بار کے نمائندوں کو معاونت کیلئے طلب کیا۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل طارق کھوکھر نے عدالت کو بتایا کہ چیف کمشنر اسلام آباد کی درخواست پر شہر میں فوج طلب کرنے سے متعلق نوٹیفکیشن جاری کیا گیا۔ جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ اس نوٹیفکیشن میں ان وجوہات کا ذکر نہیں کیا گیا جس کے تحت فوج طلب کی گئی ہے۔ 24 جولائی کو نوٹیفکیشن کے اجرا سے انصاف تک رسائی کے حصول میں دشواری کا غلط تاثر دیا گیا ہے۔
ہائی کورٹ بار کے سابق صدر سید نایاب حسن گردیزی نے کہا کہ ہائی کورٹ کے اختیارات محدود کرنا عدلیہ کی آزادی کے خلاف ہے۔ ثناء نیوز کے مطابق جسٹس اطہر من اللہ نے قرار دیا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ آرٹیکل 199 کے تحت آرٹیکل 245 کے خلاف درخواستیں سن سکتی ہے۔ ہم انصاف تک رسائی کیلئے اس راستہ کو نہیں روک سکتے۔ عدالتیں خود اپنے دائرہ اختیار کا تعین کرتی ہیں۔ حکومت ایک نوٹیفکیشن کے تحت عدالتی اختیارات میں کیسے کمی کر سکتی ہے۔