اَب اِس میں کوئی ابہام باقی نہیں ہے کہ لانگ مارچیوں اور انقلابیوں کے جائز و ناجائز مطالبات کے سامنے نوازشریف کی حکومت سیاسی فقیر ہو گئی ہے، اِس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ وزیراعظم نواز شریف نے اپنے اقتدارکے سواسال جن مذہبی وسیاسی جماعتوں کے قائدین کوکبھی سیاسی گھاس ڈالنا بھی گورانہ کیا آج یہ اُن کو فون پہ فون کر کے اُن ہی سے رابطہ کر رہے ہیں، اور یہ اور اِن کے وزراء گر گر کر التجائیں کر رہے ہیں اور ہر حربے استعمال کئے جا رہے ہیں جن میں چمک دکھا کر تو کسی کو حکومت میں وزراتوں کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملانے کے وعدے اور دعوے کئے جا رہے ہیں اور کھلے لفظوں کہاجارہا ہے کہ آج بس ایک بار نواز شریف کی کمر مضبوط کردیں تو پھر سب کی تقدیر بدل جائے گی اور اَب تو موجودہ حالات میں یہ بھی محسوس ہو رہا ہے کہ نوازح کومت والے اپنے اقتدار کو بچانے کے لئے اِس حدتک سیاسی طور پر گرچکے ہیں کہ ایسالگتاہے کہ جیسے آج اگر اِنہیں کسی گدھے کو بھی کاندھے پر اُٹھاناپڑے تو یہ اِس سے بھی گریز نہیں کریں گے،اُدھریہ حقیقت ہے کہ موجودہ ساری سیاسی ہلچل کے ذمہ دارصرف وزیراعظم نوازشریف اور اِن کے وہ شاہانہ اقدامات اور آرڈیننس ہیں جو اُنہوں نے اپنے مفادا ت کے لئے نفاذ کئے یا کروائے ہیںآج اگرواقعی مائنس نوازشریف فارمولے پر عمل کرلیاجائے اور مارچیوںاور انقلابیوں کے تمام مطالبات مان لئے جائیں تو کوئی حرج نہیں ہے کہ مارچ اور انقلاب والے اپنے اعلان کو واپس لے لیں اور 14اگست کو ا سلام آبادجانے اور دھرنابھرنادینے کا پروگرام ترک کردیں شرط تو یہی ہے مگر ایساکرے گاکون …؟آج اگر حکومت مارچیوں اور انقلابیوں کے مطالبات کو اَنااور ضدکامسئلہ نہ بنائے تو وہ سب کچھ ممکن ہوسکتاہے آج جِسے سب ناممکن سمجھ رہے ہیں۔
کیاابھی حکومت نہیں جائے گی..؟ یہ کیسی حکومت ہے کہ جس پر لانگ مارچیوں اور انقلابیوں نے دودھاری چھری لٹکا رکھی ہے مگر پھر بھی یہ ھیراپھیری سے بازنہیں آئی ہے ایک طرف یہ لانگ مارچیوں اور انقلابیوں سے نمٹنے کے لئے محاذکھلے ہوئے ہے تو دوسری طرف عوام پر مہنگائی کے بم گرانے سے بھی نہیں رہ رہی ہے،خبرہے کہ پچھلے دِنوں حکومت نے اعلان کئے بغیررات ہی رات چوروں کی طرح چپکے سے بجلی کی قیمتوں میں پانچ روپے فی یونٹ اضافہ کر دیا جس کی وجہ سے رواں ماہ صارفین کو بھاری رقوم کے بل ہاتھ آئے ہیں۔
خبر ہے کہ حکومت نے ایک سال قبل نیا ٹیرف متعارف کرواتے ہوئے پانچ سلیپ ختم کرکے گھریلوصارفین کے لئے پیک آورز اور آف پیک آورزکے دوسلیپ لاگوکردیئے جن کے نرخ پیک آورزمیں 18روپے اور آف پیک آورزمیں12روپے فی یونٹ مقررکئے گئے لیکن حکومت نے جب یہ دیکھاکہ قوم انقلابیوں اور مارچیوں کے ساتھ ہونے کو ہے توحکومت نے اپنے شاطروزراءسے مشوروں کے بعدجون میں خاموشی سے ٹیرف میں تبدیلی کردی اور گھریلوصارفین بجلی پر مہنگائی کا بم یوں گرداہے کہ وہ صارفین جوآف پیک آورزکے تحت نرخ 12روپے دیاکرتے تھے اَب وہ 17روپے فی یونٹ اداکیاکریں گے جس کے بعدپیک آورزاور آف پیک آورز کے درمیان فرق تقریباََ ختم ہوگیاہے اَب نئے فارمولے کے بعدرواں ماہ لیسکو میں بجلی کے صارفین کو17اور 18روپے فی یونٹ کے حساب سے بل بھیجے گئے ہیں جیسے ہی یہ بل صارفین کے ہاتھ لگے اَن کے چودہ طبق روشن ہوگئے اور اِن کے ہوش اڑگئے معلوم ہواہے کہ بغیرائیرکنڈیشنرکے گھروں کو اِس ماہ اوسطاََ8سے10ہزارروپے جبکہ ایک ائیرکنڈیشنر والے گھروں کو 15سے20ہزارروپے کے بل نوازحکومت نے خاموشی سے بھیج دیئے ہیں اور اِس پر یہ دعویٰ بھی ہے کہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانااور غریبوں کی حالاتِ زندگی بہترکرنانوازحکومت کا اولین اقدام ہے اگراِس حکومت میں غریبوں کو ایسے ہی ریلیف دیاگیاتو پھر کیوں نہ مُلک کے مہنگائی کے مارے غریب لوگ اِس ظالم حکومت سے نجات اور جلدچھٹکارے کے خاطر عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے پیچھے یوں نہ ہوں…؟؟سوچیں جب جمہوراور جمہوریت کے لبادے میں لپٹی حکومت عوام سے زیادہ اپنے مفادات کا سوچے اور اپنے ہی لئے اقدامات کرتی رہے تو پھر مُلک کے غریب تو دوسروں کی جانب ہی دیکھیں گے اور کسی نہ کسی کو اپنے دردکا مسیحامان کر اُس کے ہی پیچھے ہولے گی جیساکہ آج سواسالہ نوازحکومت کے غریب کُش اقدامات کے بعد قوم کی نظرعمران خان اور ڈاکٹرعلامہ طاہرالقادری پر لگ گئی ہے اور قوم یہ سمجھ رہی ہے کہ اَب یہی دونوں اشخاص ہی مُلک کی غریب قوم کی تقدیر بدلیں گے اور مُلک کو صحیح معنوں میں انقلاب اور تبدیلی کی راہ سے گامزن کرکے غریبوں کو اِن کا حق دیں گے اور مُلک کو کاروباری نوازشریف خاندان سمیت زرداری فیملی اور جاگیرداروں ، وڈیروں اور ظالم چوہدریوں سے نجات دلوائیں گے،آج قوم عمران خان اور علامہ طاہرالقادری کے ساتھ ہے اور دُعاگوہے کہ اللہ اِن دونوں کو ثابت قدم رکھے اور اِنہیں اِن کے مقاصدمیںکامیاب کرے۔اور مُلک کو نوازشریف کی سیاسی فقیرہوتی حکومت سے جلدنجات دلواکر مُلک و قوم کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنارے کرے۔آمین۔
Nawaz Sharif
بہرحال …آج گرماگرم مُلکی سیاست میں لکھنے کو تو بہت کچھ ہے مگر کیا کروں ..؟طبیعت ہی کچھ سُرمیں نہیں ہے،بس عادتاََ لکھنے کو بیٹھ گیاہوں،کوشش کروں گاکہ کچھ مختصرلکھوں ،اور کم وقت میں اُس نُوراکُشتی کا احاطہ کروں ،آج جو میرے مُلک میں کھیلی جارہی ہے،جیساکہ میں اپنے کالموں میں پہلے بھی کہہ چکاہوں کہ ایک عرصے سے میرے مُلک کے سیاستدانوں میں اقتدارکے لئے نوراکُشتی کا عنصرغالب ہے،اوراَب موجودہ حالات میں تو اِس کا مشاہدہ باآسانی کیا جاسکتاہے ،یعنی یہ کہ آج جو برسرِاقتدارہے ،اِس نے بھی ماضی میں ایسی ہی نوراکُشتی کا ڈھونگ رچایاتھاآج جس کا اِسے سامناہے اور آج جو حزبِ اختلاف میں بیٹھاہے اُسے بھی کبھی ایسی ہی نوراکُشتی سے واسطہ پڑاتھا ،اِن حالات میں جس کے سہارے یہ اپنا سیاسی قداُونچاکرنے پر لگاہواہے الغرض یہ کہ آج ہماری سیاست کے میدان اور اقتدارکی دوڑمیں نُوراکُشتی کا عنصرایساہی لازم وملزوم ہوگیاہے جیساکہ کسی جسم کے لئے خون اور اِنسانوں کے سانس لینے اوراِنہیں زندہ رہنے کے لئے آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے یکدم اِسی طرح ہماری سیاست اور اقتدار کی جنگ کے لئے نُوراکُشتی کی حیثیت ہوگئی ہے۔ بقولِ شاعر:۔
ارضِ وطن سے کوئی بھی مخلص نہیں ہے آج ہر دردمنددل میں یہی اِضطراب ہے وہ حزبِ اختلاف ہوکہ حزبِ اقتدار سچ پوچھیئے تو دونوں کی نیت خراب ہے
اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ حالات میں حکمرانوں اور سیاستدانوں کا کھیلا جانے والا نوراکشتی کا کھیل اُس عروج پر پہنچاہوادکھائی دے رہاہے جہاں سے کوئی بھی خودنیچے گرنے کا کوئی سوچ بھی نہیں رہاہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ اِس کش مکش میں کسی نہ کسی کو توضرورہی نیچے گرناہوگا،کیوں کہ اَب اِس کے بغیر کوئی چارہ ہی نہیں رہ گیا ہے، درحقیقت اِس کے کہ جن مقاصدکے لئے یہ نوراکشتی کی جارہی ہے ،اِس سے بھی سب ہی واقف ہیں مگر کوئی بھی کھل کر اپنے عزائم کو آشکارکرنے کو تیاریوں نہیں ہے کہ اِن کے عزائم کے عیاں ہوتے ہی نوراکشتی کا مقصدخاک میں مل جائے گااور سارے گیم کی بچھائی گئی بساط اُلٹ پلٹ ہوجائے گی،ایسالگتاہے کہ جیسے آزادی و لانگ مارچ اور انقلاب کا نعرہ بلندکرنے والوں کے پیچھے خودحکومت کا ہی ہاتھ ہے، کیوں کہ حکومت سواسال میں یہ اچھی طرح سے سمجھ چکی ہے کہ اَب حکومت کرنااِس کے بس میں نہیں رہاہے، اور اِس نے عوام سے جو وعدے کئے تھے یہ اِنہیں بھی پوراکرنے میں بُری طرح سے ناکام ہوگئی ہے اَب ایسے میں حکومت کی بس ایک یہی کوشش ہے کہ خداکرے کہ ایسا کوئی سیاسی عمل شروع ہوجائے کہ جو حکومت مخالف ہواور آج اللہ کا شکرہے کہ حکومت کی یہ دُعاقبول ہوئی اور اِن حالات میں کہ جب حکومت خوداقتدارچھوڑنے کے لئے آمادہ دکھائی دیتی ہے۔
اِس کی مخالفت کے لئے عمران خان المعروف سونامی آزادی و لانگ مارچ اور دھرنے اور دوسری طرف علامہ طاہرالقادری انقلاب کا جھنڈااُٹھائے حکومت کے خاتمے کے لئے 14اگست کو اسلام آبادکی جانب روانہ ہونے کے لئے تیاریوں میں مصروف ہیں،آج ایسابھی لگتاہے کہ جیسے سب اپنے دیکھے اور اَن دیکھے مقاصداور انجام کے چکرمیں پڑے ہوئے ہیں اِن کی اِن ہی کیفیات پر شاعر کا کہنا ہے کہ:۔
نفرت کا بول بالا کہیں انتشارہے اِس غم میں آج قلب ونظرسوگوار ہے میرے بہشتِ ارض میں فتنوں کا ہے نزول میرے وطن میں کشمکشِ اقتدار ہے
PMLN
یقینا آج آزادی اور لانگ مارچوں اور انقلابیوں کے انقلاب کی بازگشت نے حکمرانوں اور اِن کے ظاہروباطن حامیوں کی نیندیںغائب کردیں ہیں تووہیں قوی امکان ہے کہ اِن سب کے اوسان بھی خطاہوگئے ہوں گے مگرپھر بھی دنیا دکھاوے کے لئے ہی صحیح گرماگرم سیاسی ماحول کو معمول پر لانے اور حالات کا کچھ نہ کچھ مقابلہ کرنے کے خاطرحکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ ن سے تعلق رکھنے والے ہمارے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف اور اِن کی کچن کابینہ کے لوگ مُلک کی دیگرجماعتوں کے سربراہان سے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیںاور اپنی اِس کوشش میں لگے ہوئے ہیں کہ کسی بھی طرح سے لانگ اور آزادی مارچ اور انقلاب کا نعرہ لگانے والوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنی کمرمضبوط کی جائے۔
آج اگر موجودہ حکومت کی سواسالہ کارکردگی کا جائزہ لیاجائے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمیں کوئی ایک سوراخ بھی ایسانظرآئے جس سے قوم کی بہتر اور اچھائی کی نویدکی کوئی ایک ننھی سی بھی کرن دکھائی دے آج شایدایسے ہی حکمرانوں اور اِن کے حامی چیلے سیاست دانوں سے متعلق شاعرنے کیا خوب کہاہے وہ کہتاہے کہ:۔
وہ جن کی سیاست نے کیا مُلک کو غارت اے قوم آج اُن کے عزائم پہ نظربھی وہ جن کی حماقت نے کیا خونِ اخوت کچھ ایسے عناصر کے جرائم پہ نظر بھی
آج مُلک میں جیسے جیسے 68ویں یوم ِ آزادی کی تاریخ قریب آتی جارہی ہے تودوسری طرف لانگ مارچ اور آزادی مارچ سمیت انقلاب کی آوازبلندکرنے والوں کے عزائم سے نمٹنے کے لئے برسرِاقتدارجماعت کی پریشانیاں اور اِس کا بلڈپریشربھی بڑھتاہی جارہاہے، تووہیں وزیراعظم نوازشریف نے بھی کمرکس لی ہے اوراِنہوں نے آنے والے وقت میں اپنی حکومت کے لئے پیداہونے والی مشکلات اور پریشانیوں سے نمٹنے کے لئے سیاسی قائدین سے زوراورشورسے مشاورتیں کرنی بھی شروع کردیں ہیں جہاں وزیراعظم اور اِن کے وزراءاپنی اپنی پیشانیوں پرآئے پسینوں کے ساتھ سیاسی قائدین سے رابطوں پہ رابطے جاری رکھے ہوئے ہیںتو وہیں فرینڈلی اپوزیشن کا رول اداکرنے والی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کے چئیرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری نے بھی انتہائی محتاط اندازے لانگ مارچ و آزادی مارچ کرنے والی جماعت تحریک انصاف پاکستان کے چئیرمین عمران خان کو فون اور سراج الحق سے بھی رابطے کئے ہیں اور اخبار ی خبروں کے مطابق اِس دوران اُنہوں نے شفاف انتخابات کے لئے تحریک انصاف کی جدوجہدکی حمایت کا اعلان کیااور خدشہ ظاہر کیاہے کہ ٹکراو¿ کی صورتحال میں جمہوریت کونقصان پہنچ سکتاہے“یعنی موجودہ حالات میں کچھ ایسے بھی ہیں جو صاف چھپ بھی نہیں رہے ہیں اور سامنے بھی نہیں آرہے ہیں “ ایسے لوگوں سے حکمران جماعت اور مارچیوں اور انقلابیوں کو بھی ہوشیاررہناچاہئے ایسے لوگ کسی کے لئے بھی کچھ بھی ثابت ہوسکتے ہیں اور ایسے ہی لوگوں کے لئے شاعریہ کہتاہے کہ:۔
جس سے وقار وطن کا بلند ہو میرے وطن میں ایسی سیاست کاقحط ہے بے داغ کہہ سکیں جِسے بے لوث کہہ سکیں میرے وطن میں ایسی قیادت کا قحط ہے۔
اَب آخرمیں چلتے چلتے میں یہ عرض کرناچاہوں گا کہ حکومت مخالف اور حکومت کے حامی عناصر کو موجودہ حالات میں حاضر دماغی اور ہوش مندی سے کام لیناہوگاکسی کی ذراسی بھی غلطی کوئی بڑا سیاسی حادثہ رونماکراسکتی ہے جس کا خمیازہ ساری قوم کو مدتوں بھگتنا پڑ سکتا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ آزادی مارچ کہیں کوئیک مارچ یا قید مارچ میں نہ تبدیل ہو جائے اور شاعر کے اِس شعرکے ساتھ ہی اجازت چاہوں گا کہ:۔
لڑتے ہیں آج منصب و کرسی کے واسطے مٹتے تھے کل جوجادہ ¾ِ عشقِ جہادمیں قوم و وطن کا آج کسی کو نہیں خیال ڈوبی ہوئی ہے قوم سِیاسی مفاد میں
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com فون نمبر: 03312233463