آج ہر طرف انقلاب اور لانگ مارچ کا شور غوغا مچا ہوا ہے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ موجودہ حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے ہیں حکمران طاہر القادری اور عمران خان دونوں سے خوفزدہ ہو گئے ہیں مذاکرات کیلئے میاں شہباز شریف۔۔ عمران خان کے گھر جانے کیلئے تیارہیں اور چاروں حلقوں کی دوبارو گنتی کی خبریں بھی گردش کررہی ہیں۔
ایک وقت تھا اپوزیشن۔۔ حکومت کے خلاف تحریک چلانے کااعلان کرتی تو عوام میں ایک سننسنی اور برسر ِ اقتدار سیاستدانوں میں سراسیمگی سی پھیل جاتی حکومت مخالف سیاسی رہنما جوڑ توڑ میں مصروف ہوتے تو کئی لوگوںکی نیندیں حرام ہونے میں دیر نہ لگتی، تھڑے مارکہ ہوٹل،چائے کی دکانیں، ہیرسیلون اوپن ائر حجام کے پھٹے بحث و مباحثہ کے مراکز سمجھے جاتے تھے جہاں لوگ اپنے پسندیدہ سیاستدانوں کے حق میں عجیب و غریب دلائل اور سیاسی مخالفین کیلئے نفرت کا بر ملا اظہار کرتے رہتے جلسے، جلوس عوام کا لہو گرمانے میں پیش پیش تھے سیدھے سادھے لوگ اپنی رائے کا برملا اظہار کر دیتے اس دوران ہلکے پھلکے اندازمیں نوک جھونک بھی ہوتی معمولی لڑائی جھگڑے بھی ۔۔لیکن یہ سب کچھ ہونے کے باوجود سیانے فریقین کو سمجھاتے تو وہ تھوڑی دیر بعد ہی شیرو شکرہو جاتے آج کے دور کی طرح منافقت کم ۔۔کم تھی لوگوںمیں قوت ِ برداشت بھی۔۔۔سخت بات سن کر بھی مخالف کامسکراتا چہرہ دیکھ کردل محبت سے موم ہو جاتے اب تو معمولی معمولی باتوںپر اسلحہ نکل آتاہے چرڑ۔۔۔چرڑ ۔۔ٹھاہ۔۔ٹھاہ اور بات کیا بندہ ہی ختم۔۔۔پاکستان میں حکومت مخالف دو احتجاجی تحریکوں اور ایک دھرنے ۔۔۔نے بہت نام کمایا ایک خان عبدالقیوم خان نے صدر ایوب خان کے خلاف 15میل لمبا جلوس نکالا جس کاریکارڈ۔ آج تک کوئی نہیں توڑ سکا۔۔۔ اسے صدر ایوب خان کے خلاف عوامی تحریک کا نقطہ ٔ آغاز بھی کہا جا سکتاہے۔۔ دوسراذوالفقارعلی بھٹو کے خلاف احتجاجی تحریک جسے تحریک نظام ِ مصطفےٰ ۖ کا نام دیا گیا اس کے نتیجہ میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدارپرقبضہ کر لیا۔
سابقہ صدر آصف علی زرداری کے دور ِ حکومت میں شیخ الالسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری نے ”سیاست نہیں ریاست بچائو” کے سلوگن کے تحت اسلام آبادمیں ایک دھرنا دیا جس میں نو جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین ، بچوں اور بوڑھوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی ۔۔۔شدید سردی،دھند اور بارش میں بھی ہزاروں افرادکا دلجمعی سے بیٹھے رہنا بلاشبہ پاکستانی تاریخ کا ایک ناقابل ِ فراموش باب ہے۔۔۔ تینوں احتجاجی تحریکوں سے عوام کا تو کچھ فائدہ نہیں ہوا نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں ویسے دیکھا جائے توپاکستان کی سیاسی تاریخ کے ہر منظر نامہ میں اپوزیشن نے برسر اقتدار حکومت کے خلاف احتجاجی تحریک چلانے کی کوشش ضرور کی جب تک نوابزادہ نصراللہ خان حیات تھے انہوںنے چھوٹی پارٹیوںکوبھی بڑی جماعتوں کے شانہ بشانہ احتجاجی سیاست کی رونق بنائے رکھا جس سے ان کے گلشن کا بھی کاروبار چلتارہااورانہیں نوآموز اورنومولود پرجوش کارکن میسرآتے رہے نوابزادہ نصراللہ خان کے بعد کسی اور کو یہ” ہنر”نہ آیا بلکہ ان کے جانشین اپنے مرحوم والدکی سیاسی میراث کو ایک پارٹی میں مدغم کرکے سیاست سے ایسے” فارغ ”ہوئے کہ اب کوئی انہیں پوچھتا بھی نہیں اور نصف صدی تک سیاسی تحریکوںکا مرکزو محورPDPکا دفتر آجکل لنڈا بازار بنا ہواہے یہ بھی ہو سکتا تھانوابزادہ کے لو احقین یہ جگہ خریدکر ان کے نام پر وقف کردیتے اور یوں ایک قومی وسیاسی یادگارکی حیثیت سے پہچانی جاتی۔۔۔دراصل اہلیت نہ ہوتو بہانے بہت سوجھتے ہیں۔۔۔بہرحال ملکی سیاست میں ایک طلاطم آنے کوہے جسیحکمران پیالی میں طوفان سے تشبیہ دیتے ہیں جو کچھ بھی ہے اس سے ایک سال سے جمودکا شکار سیاست میں ہلچل کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
جب سے الیکشن ہوئے ہیں عمران خان واحد سیاستدان تھے جنہوںنے میاں نوازشریف سے ” آڈھا” لگا رکھا تھا دوسرے فرزند ِ راولپنڈی شیخ رشید کا دم غنیمت ہے جنہوںنے ہمیشہ اس حکومت کو آڑے ترچھے ہاتھوں لیابہرحال اب میاں نوازشریف کی حکومت کے خلاف مخالفین آہستہ آہستہ اکھٹاہونا شروع ہوگئے ہیں گذشتہ دنوں شیخ الالسلام پروفیسر طاہرالقادری کی میزبانی میں لندن میں چوہدری برادران اور دیگر رہنمائوںنے گرینڈ الائنس بنانے پراتفاق کرلیا شنیدہے اس میں تحریک ِ انصاف، عوامی مسلم لیگ، ایم کیو ایم ،جماعت اسلامی کو بھی شمولیت کی دعوت دیدی گئی ہے کچھ مذہبی جماعتوں نے بھی طاہرالقادری کی حمایت کااعلان کردیاہے جو ایک دوسرے کی بیساکھیاں استعمال کر کے ”پیالی میں طوفان” لانے کے متمنی ہیں۔
عمران خان اور پروفیسر طاہرالقادری کے علاوہ کسی کے پاس سٹریٹ پاور نہیں عمران خان پارلیمنٹ کے اندر، پروفیسر طاہرالقادری پارلیمنٹ کے باہرہیں اس لئے ان کی ترجیحات اور سیاسی معاملات جدا جداہیں جو گرینڈ الائنس کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیںاس میں کوئی شک نہیں سیاسی بے چینی ، مہنگائی، بیروزگاری ، لوڈشیڈنگ اورعروج پر ہے اس کے باوجود سیاسی ماحول گرم ہونے کی کوئی امید تونظرنہیں آرہی تھی لیکن اب خود حکومت نے پکڑ دھکڑ،چیخ و پکار،بغاوت کے مقدمہ، منہاج القرآن سیکرٹریٹ کا محاصرہ، تحریک ِ انصاف کے کارکنوں کی اندھا دھند گرفتاریاں اور لاہور اسلام آباد میں کنٹینر لگا کرکے ثابت کردیا ہے وہ بوکھلاہٹ کا شکارہے اور وزیر مشیر کنفیوڈ۔ حالانکہ اس وقت سیاسی و معاشی بے چینی عروج پرہے لوگوں کے پاس کھانے کو روٹی نہیں، روزگارنہیں، بجلی نہیں حالات نے غریبوں کو ادھ مواء کرکے رکھ دیا ہے۔
Long March
ماضی میں چلنے والی حکومت مخالف تحریکیں نتائج کے اعتبارسے یہ ناکام ہوگئیں کہ عوام کو کسی بھی لحاظ سے ریلیف نہیں ملا صرف یہ ہوا ایک حکمران گیا اس کی جگہ نیا آگیا نظام تبدیل ہوا نہ عوام کے حالات اور نہ ہی سسٹم میں کوئی بہتری ہی آسکی عمران خان جو چارحلقوں میں انگوٹھوں کی تصدیق کروانے کا مطالبہ کررہے تھے اور حکمران اس سے مسلسل گریزاں تھے تو اس کا ایک مطلب یہ بھی لیا جا سکتاہے کہ دال میں کچھ کالاہے یا ساری دال ہی کالی ہے اب تو سابق صدر زرداری بھی کہنے لگے ہیں کہ الیکشن میں دھاندلی ہوئی مجھے علم ہے لیکن آمریت کا راستہ روکنے کیلئے خاموش ہیں ہم کسی ایسی سوج کا حصہ نہیں بنیں گے جس سے جمہوریت کی گاڑی پٹری سے اترنے کااحتمال ہو۔
ایک سیاسی بزرجمہرکا کہناہے عمران خان کی حکومت کے خلاف احتجاج کی وجہ ان کی کچیچیاں ہیں جوانہیںسردار ایاز صادق کو دیکھ کر آتی ہیں کہ عمران خان کا قوی خیال ہے اس حلقہ میں تحریک ِ انصاف کامیاب تھی لیکن جیت ان کے مد ِ مقابل گئے اور میاں نواز شریف نے عمران خان کو چڑانے کیلئے سردار ایاز صادق کو سپیکر بناڈالا الٹا عمران خان کو حلف بھی انہی سے لینا پڑا ایک اور سیانے کا خیال ہے عمران خان کو کسی متقدرہ قوت نے ہیوی ڈوز دی ہے جو سیاست میں توازن چاہتے ہیں جب میاں نواز شریف فوج کے مقابلہ میں میڈیا کے ساتھ کھڑے ہوگئے اور اپنا وزن اس پلڑے میں ڈال دیا تو ضروری ہوگیا کہ موجودہ حکومت کوہلکا سا جھٹکا دیا جائے استاد قمر جلالوی نے شاید ایسے موقعہ کیلئے ہی کہا تھا۔
اے موج ِ بلا ذرا ان کو بھی دو چار تھپیڑے ہلکے سے کچھ لوگ ابھی تک ساحل پہ موجوں کا نظارہ کرتے ہیں
یہ تو سنی سنائی باتیں اور حالات کا بے رحم تجزیہ ہوسکتاہے لیکن خود آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا کہناہے کہ وہ جمہوریت کے حامی ہیں اس کو کوئی خطرہ نہیں عدالت ِ عظمیٰ نے تو واضح کررکھاہے اب جمہوریت کے علاوہ کوئی اور نظام کی کوئی گنجائش نہیں ان حالات میں شیخ الالسلام پروفیسر طاہرالقادری، چوہدری برادران،عمران خان، عوامی مسلم لیگ کے شیخ رشید کی احتجاجی تحریک کیا رنگ لائے گی یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا ان ہائوس تبدیلی،(اسحاق ڈارنے مائنس نوازشریف فارمولا مستردکردیاہے )عمران خان کے لانگ مارچ کے بارے پرویز رشید کی رائے تو پیالی میں طوفان ہے۔۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتاہے ویسے حالا ت تویہ ہیں کہ شیخ الالسلام پروفیسر طاہرالقادری نے حکومت کو” وخت ” ڈال رکھاہے ان پر غداری کا مقدمہ بھی بنادیا گیاہے اور35کروڑ ٹیکس جمع کروانے کا نوٹس بھی دیدیا گیا ہے۔
تیل دیکھو یا تیل کی دھار یا پھر دیکھئے کیا گذرتی ہے قطرے پہ گوہر ہونے تک یہ ہفتہ ملکی سیاست میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے شیخ الالسلام کا دعوےٰ ہے نواز حکومت31اگست تک ختم ہو جائے گی عمران خان بھی ایسے ہی دعوے کررہے ہیں ہر زباں پر ایک ہی سوال ہے اب کیا ہوگا؟ لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے ہیں کیا ہونے والا ہے؟ اس کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے احتجاج کے نتائج سوچ سے مختلف بھی ہو سکتے ہیں۔