لندن (جیوڈیسک) برطانوی حکومت میں شامل کچھ اراکینِ پارلیمنٹ کا کہنا ہے کہ سعیدہ وارثی کے استعفے کی وجہ ناصرف غرہ کے معاملے پر وزیراعظم کمیرون کی پالیسی تھی، بلکہ وہ ایک عرصے سے برمنگھم میں مسلمانوں کے چند اسکولوں پر شدت پسندوں کے قبضے کے تفتیشی کمیشن اور کابینہ میں حالیہ ردوبدل پر بھی اپنے تحفظات کا اظہار کررہی تھیں۔
خیال رہے کہ پاکستانی نژاد برطانوی وزیر سعیدہ وارثی نے غزہ کی صورتحال اور اس پر برطانوی حکومت کی پالیسی کو رد کرتے ہوئے پانچ اگست کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔
بی بی سی کی ایک رپورٹ میں مخلوط حکومت میں شامل دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کے اراکینِ پارلیمنٹ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ سیعدہ وارثی کو برطانوی کابینہ میں کی جانی والی اس تبدیلی پر اعتراض تھا، جس کے تحت فیلپ ہیمنڈ کو وزیرِ خارجہ تعینات کرتے ہوئے وزیر کینتھ کلارک اور سابق اٹارنی جنرل ڈومینیک گریو کو ان کے عہدوں سے برطرف کردیا گیا تھا۔
یہی نہیں بلکہ برمنگھم میں مسلمانوں کے چند اسکولوں پر شدت پسندوں کے قبضے کے حوالے سے تفتیش کرنے والے ایک کمیشن کے سربراہ کی حیثیت سے پولیس کے سابق انٹیلی جنس چیف ہیٹر کلارک کی تعیناتی پر بھی انہیں شدید تحفظات تھے۔
رپورٹ کے مطابق ٹوری پارٹی کے ایک سینیئر رکن نے اس بات کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ کابینہ کی کئی اراکین سمیت اس وقت کھل کر اپنے تحفظات کا اظہار کرنا شروع کردیا ہے۔ واضح رہے کہ سعیدہ وارثی برطانیہ کی پہلی مسلمان خاتون رکن کابینہ ہیں، جنہوں نے 2010ء میں برطانوی کابینہ میں شمولیت اختیار کی تھی۔ سعیدہ وارثی کا خاندان 1960ء میں پاکستان کے شہر گوجر خان سے برطانیہ منتقل ہو گیا تھا۔
انہوں نے اپنے زمانۂ طالب علمی سے ہی سیاست میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ سعیدہ وارثی نے اپنے آبائی گاؤں گوجر خان میں خواتین کی فلاح و بہبود کے حوالے سے پانچ ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز بھی کھول رکھے ہیں۔