یہ پیش گوئی تو سچ ثابت ہوئی کہ عید کے بعد نواز شریف حکومت کے خلاف دما دم مست قلندر ہو گا شیخ الاسلام کے اعلان ِ بغاوت سے حالات انتہائی گھمبیر ہو گئے ہیں عمران خان کے آزادی مارچ سے بیشتر ہی حکومت کے ہاتھ پائوں پھول گئے اور یوم ِ شہداء کے قافلوںکو روکنے پر عوامی تحریک کے کارکنوں نے نہ صرف شہرشہر احتجاج کیا بلکہ پولیس سے زوردار جھڑپیں بھی۔۔۔ پولیس اور عوامی تحریک دونوں کو ناخوشگوار واقعات کا سامنا کرنا پڑا طرفین میں ہلاک و زخمی بھی ہوئے اللہ ہم پررحم کرے ایسے حالات ملک میں خانہ جنگی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔
پاکستان کا نظام تبدیل کرنے کی خواہش ہردل میں مچل رہی ہے لیکن اس کی قیمت بے گناہوںکے خون کی ندیاں بہاکر چکانی پڑے تو ایسی جمہوریت پرچارحرف بھیجنا زیادہ بہترہے ۔کہتے ہیں تاریخ اپنے آپ کو دہراتی ہے میاں نوازشریف نے ایک عرصہ محترمہ بے نظیر بھٹوکے ساتھ محاذ آرائی کرتے ہوئے” آڈھا” لگائے رکھادونوں کوفوجی ڈکٹیٹر وںنے اقتدارسے محروم کردیا تو انہیں احساس ہواکہ جمہوریت کو مضبوط بنانے میں ہی ان کی بقاء ہے تمام تر ناراضگیوں، محاذآرائی اور ایک دوسرے کے حریف ہونے کے باوجود دونوں بڑی جماعتوںکے رہنمائوںنے” میثاق ِ جمہوریت ” پراتفاق کرلیا۔
اس طرح سے میاں نواز شریف محاذآرائی کے جس کمبل کو چھوڑنا چاہتے تھے وہ آج بھی اس سے جان نہیں چھڑا سکے اور اب عمران خان کیا کم تھے کہ شیخ الاسلام طاہرالقادری بھی ان کو چمٹ گئے ہیں دونوںکا رویہ جارحانہ ہے بلکہ طاہرالقادری توعمران خان سے بھی دوہاتھ آگے نکل گئے ان کی کیفیت تخت یا تختہ والی ہے ہزاروں کے اجتماع میں برملا کہا مجھے شہید کردیا جائے تو کارکن شریف خاندان سے ضروربدلہ لیں سیاست میں اتنی شدت انتہائی خطرناک ہے حالانکہ شیخ الاسلام نے پرامن جمہوری انقلاب کااعلان کیا تھا لیکن منہاج القرآن کے سینکڑوںکارکنوںکو جس اندازسے گولیاں ماری گئیںوہ بہت بہیمانہ تھا 22افرادکی ہلاکت سے طاہرالقادری کے ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ کئے لوگ کہتے ہیں موجودہ حالات کی تمام تر ذمہ دار حکومتی عہدیدار ہیں جس نے فہم وفراست سے کام لینے کی بجائے جذبات سے کام لیا۔
لوگ تویہ بھی کہتے ہیں یہ کتنی عجیب بات ہے کہ حکومت نے دہشت گردوںسے تو مذاکرات کیلئے کئی بار کمیٹیاں تشکیل دیں جبکہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے محض بیریئر ہٹانے کے ایشوپر متعدد افرادکو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا ۔ چاہیے تو یہ تھا کہ اس سانحہ کے بعداس معاملہ کو سلجھانے کی کوشش کی جاتی لیکن وزیر،مشیر،ارکان ِ اسمبلی پنجھے جھاڑکر طاہرالقادری کے پیچھے پڑ گئے نااہلی کو چھپانے کیلئے لوگ یقینا ایسا ہی کرتے ہیں ایساہی رویہ عمران خان کے ساتھ بھی روا رکھا وہ چیختے چلاتے رہے مطالبے پر مطالبہ کرتے رہے کہ چارحلقوں میں دوبارہ گنتی کروائیں ان کی باتوںپریہ لوگ پاگلوںکی طرح ہنستے تھے ان کی کسی بات کو سنجیدہ نہیں لیا اب لانگ مارچ کا دن قریب آرہا ہے مظہرشاہ کی طرح بڑھکیں مارنے والوںکو کچھ نہیں سوجھ رہا ان کے ہاتھوںکے طوطے اڑ گئے ہیں اب حکومتی پارٹی چارکیا10 حلقوںمیں دوبارہ گنتی کروانے کے لئے سرکے بل تیار ہے اور وزیر ِ اعظم عمران خان کے گھر جانے کیلئے اشارے کے منتظر ہیں کھیت چڑیا چگ جانے کے بعد اقدامات کاکیا فائدہ؟۔۔۔غالب خیال ہے کہ اس وقت عمران خان سے زیادہ خطرناک طاہرالقادری ہیں جس کے ساتھ بلاشبہ ہزاروں جانثارموجود ہیں جو اپنے قائد کے ساتھ آخری لمحے تک وفا کیلئے مضطرب ہیں اور سب سے بڑھ کر فیصلوںکا اختیار اکیلے شیخ الاسلام طاہرالقادری کے پاس ہے اس کے برعکس تحریک ِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کی ایسی پوزیشن نہیں ہے ان کے ساتھ بھی ہزاروں بلکہ لاکھوں سیاسی کارکن تو موجودہیں لیکن جانثار کتنے۔۔۔
کوئی نہیں جانتا؟پھر فیصلوں کیلئے عہداران اور کور کمیٹی کی مشاورت ضروری۔۔۔ایک جمہوری پارٹی کیلئے یہ ناگزیرہے۔۔۔۔ویسے ملک میںجو آج سیاسی صورت ِ حال ہے اسے انتہائی گھمبیراور خوفناک کہا جا سکتاہے اس طرز ِ عمل سے جمہوریت کو بے شمار خطرات لاحق ہوگئے ہیں تمام سیاسی مسائل مذاکرات کے ذریعے حل کرناہی مناسب بات ہے ایس رحجان چل نکلاتو کوئی بھی برادری،فرقہ، پارٹی ،مسلک یا تنظیم دو چار لاکھ بندے اکھٹے کرکے حکومت کیلئے مسائل پیدا کر سکتی ہے اور اگر ان کا یہ مطالبہ ہوا کہ صدر ،وزیر ِ اعظم، آرمی چیف یا وزیر ِ اعلیٰ مستعفی ہو جائے تو تصور کی آنکھ سے دیکھیں اور دل میں محسوس کریں پھر کیا ہوگا؟ کیسی انارکی پھیلے گی ۔۔۔اس کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔
Imran Khan
۔ہر جمہوری حکومت کو مدت پوری کرنا اس کا جمہوری حق ہے اس سے محروم کرنا انتہائی خوفناک ہے عمران خان ایک جمہوری پارٹی کے چیئرمین ہیں ان کو ضرور اس پرغورکرنا چاہیے ۔۔۔ طاہرالقادری کی بات اور ہے وہ یا ان کی عوامی تحریک کا کوئی ممبر اس وقت پارلیمنٹ میں موجود نہیں وہ شروع ہی سے موجودہ انتخابی سسٹم کے خلاف ہیں وہ تو ایک عرصہ سے کہہ رہے کہ تمام امیدواروںپر آرٹیکل62-61کااطلاق کیا جائے اس کے بغیر تبدیلی نہیں آسکتی اور آئین کی پہلی 40شقیں نافذکی جائیں تاکہ استحصالی نظام کا خاتمہ ہو سکے ۔ طاہرالقادری نے تو کئی بار کہاموجودہ انتخابی اصلاحات، الیکشن کمیشن کاقیام آئینی تقاضے پورے نہیں کرتا۔۔۔ اس کے برعکس عمران خان اور اس کی پارٹی نے موجودہ الیکشن کمیشن کی انتخابی اصلاحات کے تحت عام انتخابات میں حصہ لیا لاہور میں جس سے الیکشن ہارے یا ہرایا گیا اسی سے حلف لیاان کیلئے بہتر تھا ایاز صادق سے حلف لینے کی بجائے اگروہ اسی وقت شور مچاتے کہ دھاندلی ہوئی ہے تو آج بہت مختلف سیاسی صورت ِ حال ہوتی ۔۔۔بہرحا ل اب جوش نہیں ہوش میں آنے کا وقت ہے حکومت ،عمران خان اور طاہرالقادری تینوںپر بھاری ذمہ داری عائدہوتی ہے کہ وہ حالات کی نزاکت کو سمجھیں وزیرِ اعظم میاں نواز شریف اپنے وفاقی و صوبائی وزیروں،مشیروں پارٹی عہدیداروں کو ہر قسم کی بیان بازی سے روک دیں ڈاکٹر عبدالقدیرخان،ظفراللہ جمالی،پیرصاحب پگاڑا جیسیشخصیات کو مذاکرات کی اہم ذمہ داری دی جائے خود میاں نواز شریف۔ ملک وقوم کے وسیع تر مفاد کے پیش ِ نظر۔ عمران خان اور طاہرالقادری دونوں سے ملاقات کریں تاکہ قوم دما دم مست قلندرکی کیفیت سے باہر آسکے اس وقت پاکستانی تقسیم در تقسیم ہوتے چلے جارہے ہیں چوہدری برادران،شیخ رشید اچھی باتیں کرتے ہیں لیکن جلتی پر تیل نہ ڈالیں اس سے خدشہ ہے کہ کہیں یہ سارا سسٹم ہی رول بیک نہ ہو جائے۔
کیونکہ عمران خان کا لانگ مارچ۔۔ اوپرسے شیخ الاسلام کے انقلاب مارچ نے حکومت مخالف قوتوںکے غبارے میں ہوا بھردی ہے لوگ شد مد سے لانگ مارچ اور انقلاب کے حق اور مخالفت میں دلیلیں دیتے نظر آتے ہیں میاں نواز شریف کو خود ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا جائزہ لینا چاہیے عقل کے فیصلے جذبات سے کرنا کبھی بھی بہترثابت نہیں ہوتا۔۔۔ عمران خان اور طاہرالقادری بھی تخت یا تختہ پروگرام پر نظرثانی کریں بدترین حالات میں بھی امیدکا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا نہیں چاہیے۔عمران خان اور طاہرالقادری مسلسل کہہ رہے ہیں وہ موروثی سیاست کے خلاف جدوجہدکررہے ہیں ، تبدیلی ہمارامشن ہے،موجودہ سسٹم بدلیں گے ہماری تو اتنی سی گذارش ہے یہ تبدیلی پر امن ہونی چاہیے لیکن اس کی قیمت بے گناہوںکے خون کی ندیاں بہاکر چکانی پڑے تو ایسی جمہوریت پر چار حرف بھیجنا زیادہ بہتر ہے۔