ہاسٹل کا پپو

Lahore, Punjab University

Lahore, Punjab University

لاہور میں پنجاب یونیورسٹی ہاسٹل میں گزارا گیا عرصہ بہت سی کھٹی میٹھی یادوں کا مجموعہ ہے۔ ویسے تو ہاسٹل میں بہت سی شرارتیں کیں جنہیں یاد کرکے ا ب ہنسی آتی ہے۔ ایڈونچرز کی میں ہمیشہ سے شوقین رہی ہوں مگر کبھی کبھی ایڈویچر سر کا درد بھی بن جاتے ہیں، یہ واقعہ بھی کچھ ایسا ہی ہے۔

پپو خرگوش کاایک بچہ تھا جس کا رنگ سفید، آنکھیں لال او ر جسم پر سینکڑوں نرم و ملائم بال تھے، اس کی عمر قریباً ۳ ماہ کے لگ بھگ تھی اور میں نے اسے لاہور کی مشہورٹو لنٹن مارکیٹ سے ۳۰۰ روپے کے عوض خریدا تھا ٹولنٹن مارکیٹ جہاں سے آپ ہر طرح کا جانور با آسانی خرید کر اپنا شوق پورا کرسکتے ہیں ، خرگوش کا و ہ بچہ اب میرے ہاسٹل کے کمرے میں میرے روم میٹ کی حیثیت سے مقیم تھا اسے پہچان دینے کے لیے میں نے اس کا نام ’پپو ‘ رکھا، پپو دیکھنے میں جتنا معصوم تھا اندر سے اتنا ہی زیادہ شریر تھا۔

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں ایک پراجیکٹ کے لیے خرگوشوں پر ریسرچ کر رہی تھی تو ذہن میں آیا کہ کیوں نہ یہ ایڈونچر بھی کر لیا جائے کیونکہ اس سے پہلے میں ہاسٹل کے کمرے میں مچھلیاں رکھ چکی تھی خیر شوق کے ہاتھوں مجبور ہو کر خرگوش تو منگوا لیا مگر اسے کمرے میں رکھنا مجھے بہت مہنگا پڑ ا، پپو کو کسی ڈبے میں ڈال کر رکھنا مجھے جانوروں کے حقوق کی خلاف ورزی محسوس ہوا، اس لیے میں نے اسے کمرے میں کھلاچھوڑ دیا تا کہ وہ بھر پور طریقے سے پھل پھول سکے وہ پورا دن کمرے میں مزے سے گھومتا رہتا اس کے کھانے پینے کا الگ سے مسئلہ شروع ہوگیا، اس کے لیے چارہ کہاں سے آئے دیکھنے میں وہ چھوٹا ضرور تھا مگر اچھی خاصی مقدار میں چارہ کھا جاتا تھا۔

ہاسٹل کے سامنے بہت بڑے پیمانے پر زمین خالی پڑی تھی اور اس میں کافی مقدار میں گھاس پھوس موجود تھی صبح یونیورسٹی جانے سے پہلے میں گھاس توڑتی اورساتھ شرم سے پانی پانی ہورہی ہوتی کہ کہیں کوئی دیکھ نہ لے،گھاس اور پانی پپو کے لیے ترتیب سے رکھ کر یونیورسٹی چلی جاتی اور ساتھ دل میں ڈر ہوتا کہ کہیں میرے واپس آنے سے پہلے پپو صاحب ساری گھاس چٹ نہ کر جائیں پپو پورا دن میرے چھوٹے سے کمرے میں دندناتا پھرتا تھاکبھی کھڑکی سے آنے والی دھوپ سینکتا اور کبھی اٹکھیلیاں کرتا کمرے کی وہ حالت تھی کہ نہ پوچھیں۔

 Lahore Punjab University Hostel

Lahore Punjab University Hostel

پپو کے نخرے برداشت کرتے کرتے ایک ہفتہ گزر گیا اس دوران
پورے ہاسٹل میں اس کا چرچہ ہونے لگا آس پاس کے کمرے کی لڑکیاں گاہے بگاہے پپو سے ملنے آتی رہتیں یونیورسٹی میں چھٹیاں ہونے کو تھیں اور میں اسی انتظار میں تھی کہ کب گھر والے لینے آئیں اور میں پپو کو لے کر گھر جاؤں بلاآخر وہ دن بھی آگیا اور میں نے سامان باندھ کر رکھ دیا کہ جیسے ہی لینے آئیں گے فوراًپپو کو آواز دوں گی اور ڈبے میں ڈال کر لے جاؤں گی جیسے ہی امی مجھے لینے کمرے میں داخل ہوئیں تواپنا سر پکڑ کر رہ گئیں فوراً ناک کو لپیٹا اور ابھی ڈانٹنا شروع کرنے ہی والی تھیں کہ میں نے سمجھایا کہ رکیں میں ذرا پپو کو ڈبے میں ڈال لوں ۔ اس وقت میں نے پپو پپوکی آوازیں لگانا شروع کیں مگر پپو صاحب نے اپنا نام پہچاننے سے انکار کردیا تھا اور میری امی ہکا بکا مجھے یہ سب تماشا کرتے دیکھ رہی تھیں جبکہ میں ناک لپیٹے کبھی کمرے کے ایک کونے میں جاتی تو کبھی دوسرے کونے میں وہ کمرے میں ناچتا پھر رہا تھا بھاگ کر کبھی ایک کونے میں چلا جاتا تو کبھی دوسرے کونے میں کبھی ٹیبل کے پیچھے، تو کبھی چارپائی کے نیچے اسے پرواہ ہی کہاں تھی میری تمام تر کوششوں کے باوجود پپو نہ پکڑا گیا تو میں ہاسٹل سٹاف میں سے دو آدمی بلا کر لائی اور ان سے پپو کو پکڑنے کے لیے کہاآخر کار آدھے گھنٹے کی کاروائی کے بعد وہ اسے پکڑنے میں کامیاب ہوگئے ، انہوں نے اسے پکڑ کرگتے کے ڈبے میں ڈالا جس میں پہلے سے چھوٹے چھوٹے سوراخ کیے ہوئے تھے اور ساتھ ہی میں نے سکون کا سانس لیا اس پوری کاروائی میں ڈیڑھ سے دو گھنٹے کا ٹائم لگ گیا بھائی جو گاڑی میں بیٹھا انتظار کر رہا تھا غصے سے آگ بگولہ ہو رہا تھاکیونکہ رات ہونے کو تھی اور آگے لمبا سفر کرنا تھا۔

خیربھاگ کر سامان گاڑی میں رکھا اور یوں پپو کے ساتھ سفر کا آغاز ہواپپو کا ڈبہ میں نے اپنی گود میں رکھا کیونکہ اسے پاؤں میں رکھنا مجھے اس کے شایان شان نہ لگاراستے میں جب اونچے نیچے جمپ آتے تو پپو صاحب بے قابو ہونے لگتے آخر کار اس کی برداشت کی حد ہوگئی اور اس نے مسلسل جدوجہد کے بعد گتے کا ڈبہ پھاڑ دیا جیسے ہی وہ مجھے کاٹنے کی کوشش کرنے لگا میں نے چیخ ماری اور ڈر کر اسے چھوڑ دیا بس پھرمیری اور ا می کی چیخیں تھیں اور پپو ایک دم سے اتنی چیخیں سن کر سہم گیا اور کونے میں لگ گیا تب بھائی نے فوراً کار ایک طرف لگا کر اسے پکڑا ، پولی تھین بیگ میں ڈالا، اس کا منہ پولی تھین بیگ سے باہر نکال کر پپو کواپنی تحویل میں لے لیا،ہاسٹل سے گھر جانے میں کوئی پانچ سے چھ گھنٹے کا وقت لگ گیا اور سارا راستہ پپو نے تگنی کا ناچ نچا یا، گھر پہنچتے پہنچتے بہت رات ہوگئی تھی واپس آتے ہی پپو کی تمام تر گستاخیوں کے باوجود میں نے اسے گاجریں ڈالیں اور پنجرے میں بند کر کے سکون کا سانس لیا، اگلے دن جب میں سو کر اٹھی تو پپو گھر سے غائب تھا میرے پوچھنے پر امی نے بتایا کہ انہوں نے اسے ایک عورت کے ہمراہ گاؤں روانہ کردیاہے جہاں اسے ہر وقت آسانی سے چارہ مہیا ہوگا اور بہت سے اور خرگوش بھی اس کا من لگانے کے لیے موجود ہوں گے۔

خیر میرے دل کو کافی تسلی ہوگئی اور سب سے مزے کی بات یہ کہ جب میں چھٹیاں گزار کر واپس ہاسٹل گئی تواچھی طرح سے اپنا کمرہ دھلوایا جو اس وقت ہاسٹل کے کمرے کی بجائے چڑیا گھر کا کوئی پنجرہ زیادہ لگ رہا تھا۔ سرف ،ڈیٹر جنٹ حتی کہ تیزاب بھی استعمال کرنا پڑا مگر پپو کی بدبو جاتے جاتے بہت ٹائم لگ گیا۔ اب سوچ کر خود پر ہنسی آتی ہے کہ مجھے کیا سوجھی تھی کہ ہاسٹل کے چھوٹے سے کمرے میں خرگوش پال لیا اور اس کے نخرے الگ اٹھائے۔

Seham Anwar

Seham Anwar

تحریر: سیہام انور الریاض