ڈاکٹر محمد طاہر القادری 19 فبروری 1951ء کو جھنگ میں پیدا ہوئے ہیں۔آپ معروف عالم دین ڈاکٹر فرید الدین قادری کے بیٹے ہیں۔ان کے آباؤ اجداد کا سیال خاندان سے تعلق تھے جو تحصیل جھنگ کے جینوٹ واقع گاؤں کھیوا کے نواب تھے۔ ابتداء ہی سے اسلامی تعلیم حاصل کرکے عام لوگوں تک پہنچانے کا بے شوق تھا ۔آپ تحریک منہاج القران کے بانی رہنما ء ہیںجو 1980ء اسلام کی روایتی تعلیمات کو عام کر رہے ہیں۔
آپ منہاج ویلفیئر فاؤنڈیشن، عوامی تعلیمی منصوبہ اور منہاج یونیورسٹی کے بھی بانی ہیں اور ساتھ پاکستان عوامی تحریک سیاسی جماعت کے بانی و چیئرمین ہیں۔آپ شیخ سید طاہر علااؤالدین الگیلانی کے مرید ہیں۔آپ کو 2004ء میں عرب علماء کی طرف سے شیخ الاسلام کا خطاب دیا گیا۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک سنی سکالر ہیں مگر وہ خود کو بریلوی اور دیو بندی کی بندشوں سے آزاد ایک عام مسلمان قرار دیتے ہیں ان کے مطابق اپنا عقیدہ چھوڑو مت اور دوسروں چھیڑومت کی پالیسی اتحاد امت کے لیے ناگزیر ہے۔آپ 1974ء تا 1975ء گورنمنٹ کالچ عیسیٰ خیل میا نوالی میں لیکچرار اسلامک اسٹڈیڈ کے خدمات سر انجام دیئے ہیں 1976ء تا1978ء ایڈوکیٹ ڈسٹرک کورٹ جھنگ بھی رہے ہیں۔
1978 ء میں مشیر وفاقی شرعی عدالت پاکستان اور سپریم کورٹ آف پاکستان بنے ہیں۔ 1978ء میں ماہر قومی کمیٹی برائے نصابات اسلامی۔ 1978ء تا 1983ء لیکچرار اسلامک لاء پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور میں بھی خدمات سر انجام دیئے ہیں۔ 1983ء تا 1988ء وزٹنگ پروفیسر و سربراہ شعبہ اسلامی قانوں( برائے ایل ایل ایم کلاسز)پنجاب یونیورسٹی لاء کالج لاہور رہے ہیں۔ 1986ء تاحال چانسلر/ چیئرمین بورڈ آف گورنرز منہاج یونیورسٹی لاہور کے خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔ 1995ء میں آپ نے عوامی تعلیمی منصوبہ شروع کیا جسے غیر سرکاری سطح پر دنیا کا سب سے بڑا تعلیمی منصوبہ کہا جاتا ہے۔
اس کے تحت پاکستان کے طول ع عرض میں 572 تعلیمی ادارے قائم ہیں 2005ء میں لاہور میں قائم کردہ منہاج یونیورسٹی ہائر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کی طرف سے چارٹر کر دی گئی ، جسے 2009 ء میں ہائر ایجوکیشن کی طرف سے کیٹگریX سے W میں ترقی دے دی گئی۔ 25 مئی 1989ء کو آپ نے پاکستان عوامی تحریک کے نام ایک سیاسی جماعت بنائی، جس کا بنیادی ایجنڈپاکستان میں انسانی حقوق و عدل و انصاف کی فراہمی ،خواتین کے حقوق کا تحفظ، تعلیم اور صحت کی بنیادی سہولیات کی فراہمی، ملکی سیاست سے کرپشن اور دولت کے اثرات کا خاتمہ جیسی مقاصد پیش کیے ہیں۔ 1990ء میں ان کی جماعت پاکستان عوامی تحریک نے پہلی بار عام انتخابات میں حصہ لیا۔
1991 ء میں ملک میں جاری فرقہ واریت اور شیعہ سنی فسادات کے خاتمے کے لیے پاکستان عوامی تحریک اور تحریک نفاذ فقہ جعفریہ کے مابین اعلامیہ وحدت جاری کیا گیا۔ 1989ء تا 1993ء انہوں نے اسمبلی سے باہر اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور ملکی تعلیمی سیاسی اور معاشی صورتحال پر حکومت وقت کاتجاویز ارسال کیے۔ 1992ء آپ نے قومی اور بین الاقوامی ٹرانزیکشنز کا احاطہ کرنے والا بلا سود بینکاری نظام پیش کیا جسے صنعتی اور بینکاری حلقوں میں سراہا گیا۔ 1998ء میں سیاسی اتحاد پاکستان عوامی اتحاد کے صدر بنے ، جس میں پاکستان پیپلز پارٹی سمیت کل 19 جماعتیں شامل تھیں۔2003ء میں محترمہ بے نظیر بھٹو انکے ادارے کی تاحیات رفاقت اختیار کی۔
2003 ء میں آپ نے فرد واحد کی آمریت کے خلاف قومی اسمبلی کی نشست سے استیفیٰ دے دیا جو پاکستان کی تاریخ میں کسی بھی رکن اسمبلی کی طرف سے پہلا ا ستیفیٰ تھا۔ 2006ء میں جب ڈنمارک میں نبی اکرم ۖ کے توہین امیز خاکے بنائے گئے تو آپ نے اقوام متحدہ کو ایک احتجاجی مراسلہ بھیجا، جس کے ساتھ 15 کلومیٹر طویل کپڑے کا بینرز بھی تھا، جس پر 10 لاکھ سے زائد لوگوںکے دستخط بھی موجودتھے۔
توہین امیز خاکو ںکے حوالے سے آپ نے امریکہ ، برطانیہ ، ڈنمارک ، ناروے، و دیگر یورپی ممالک کی حکومتوں کو ” دنیا کو مذہبی تصادم سے بچایا جائے” کے نام سے ایک مراسلہ بھی جاری کیا۔ 2009ء اسرائیل کے ہاتھوں ہونے والی غزہ کی تبائی کے بعد فلسطینی مسلمان بھائیوں سے اظہار یکجہتی کے لیے غزہ کانفرنس کا انعقاد کیا اور بعدازاں متاثرین کے لیے امدادی سامان بھی بھیجا۔آپ کء زیر اہتمام لا ہور میں ہر سال رمضان المبارک میں اجتماعی اعتکاف ہوتا ہے جسے حرمین شرفین کے بعد دنیا کا بڑا اجتماعی اعتکاف کہا جاتا ہے ، آپ کء زیر اہتمام لا ہور میں مینار پاکستان کے تاریخی مقام پر ہر سال میلاد کانفرنس منقعد ہوتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ دنیا کا سب سے بڑا میلاد کانفرنس ہے۔تحریک منہاج القران کی دنیا بھر میں شاخین ہیں ، جو تارکین وطن کی نئی نسل کو اسلام پر کاربند رکھنے میں اپنا کردار ادا کر رہی ہے۔ آج ہردرد دل رکھنے والا پاکستانی پریشان ہے کہ کسی کی جان و مال اور عزت و آبرو محفوظ نہیں۔
Pakistan
پاکستان 21 ویں صدی میںتعلیمی معیارکے حوالے سے دنیا کے 178 ویں نمبر پر ہے۔عوام کی غالب اکثریت صحت کی بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔دہشت گرد ی بد امنی اور قتل و غارت کا دور دورہ ہے۔لوڈشیڈنگ ، بے روزگاری اور کمر توڑ مہنگائی نے 19 کروڑ عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے۔امیر امیر اور غریب غریب تر ہوتا جا رہا ہے۔ملک کے 95% وسائل پر 5% لوگ قابض اور 95% لوگ5% وسائل پر گزارہ کرنے پر مجبور ہیں۔پاک سر زمین دنیا کا سب سے زیادہ زرخیز اور قدرتی وسائل سے مالامال خطہ ہے مگر عوام بنیادی ضروریات زندگی تک سے بھی محروم ہیں۔فرقہ واریت ، صوبائی و لسانی تعصبات اور سیاسی مفادات کی جنگ نے قوم کو دھڑوں میں تقسیم کر دیا ہے ۔ اداروں کے درمیان محاز آرائی عروج پر ہے۔
اندرونی اور بیرونی سازشوں نے پاکستان کا وجود خطرے میں ڈال دیا ہے۔ درحقیقت ان حالات میں ہر فرد یہ سوچتا ہے کہ کیا یہ مسائل ایسے ہی رہیں گے ؟ ہم اپنی آئندہ نسلوں کو کس طرح کا پاکستان دے رہے ہیں ؟ کیا ہماری آنے والی نسلوں کا مستقبل بد امنیاور دہشت گردی ہے؟ کیا کوئی راستہ ایسا بھی ہے جس پر چل کر پاکستان کو ایک مضبوط ترقی یافتہ فلاحی بنایا جا سکتا ہے؟ تبدیلی ہر پاکستانی کی خواہش ہے مگر تبدیلی کیسے آئے گی؟ کسی کے پاس کوئی واضع لائحہ عمل نہیں اب جبکہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کی زیر صدارت 23 دسمبر 2012 کو مینار پاکستان میں جلسہ عام ہو رہا ہے ۔ دیکھتے ہیں کہ اس جلسے میں کتنی کامیا بی ملتی ہے ۔لاکھوں لوگوں شرکت متوقع بھی ہے۔
اس جلسے سے تاریخ کا فیصلہ بھی متوقع ہے کیونکہ باقی سیاسی رہنماؤں سے کافی الگ نظریہ اور عمل رکھتا ہے ۔ملک کے کونے کونے سے لوگ شرکت کر سکتے ہیں میرے شہر سے بھی غلام محمد قادری کی سربرائی میں کافی کارکنان روانہ ہیں اسی طرح ملک کے کونے کونے سے لوگ شرکت کریں گہ کافی سالوں بعد ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان لوٹ رہے ہیں انکا متن صرف پاکستان کو بچانا ہے جس طرح ہر سیاسی رہنماء یہی بات کرتا ہے لیکن عمل بہت کم لوگ کرتے ہیں۔
ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک اچھے انسان ہیں ، ہمیشہ اسلامی تعلیمات پر یقین رکھا ہے مجھے امید ہے کہ ڈاکٹر صاحب عمران خان سے زرا ہٹ کر پالیسی اختیار کریں گے جس میں سیاست نہیں ریا ست بچاؤ کا نعرہ گونجے گا ڈاکٹر محمد طاہر القادری پاکستان میں ایک نئی تاریخ رقم کریں گے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے لیے اسلامی نظام لانے کی بات کریں گے جس سے پاکستا ن کی ترقی، خوشحالی اور امن کی ضمانت ملے گی۔پاکستان کی بد قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس کوئی سیاست دان نہیں ہے سارے سیاست کے نام پر کاروبار اور دکانداری کرتے ہیں مگر اللہ کا خوف بھُلا کر اپنی نفس کو خوش کرنے پر تلے ہیں۔
سوچ اور عمل میں تضاد پائی جاتی ہے ۔پاکستان کواسلامی نظام سے بچایا جا سکتا ہے مگر اسلامی نظام کی بات کرنے والے مذہبی سیاسی جماعتیںبھی اسلام کے روایات کو نظر انداز کیے ہوئے ہیں ۔دوسرے مذہبی سیاسی جماعتیں صرف نعرہ اچھا لگاتے ہیں مگر کردار میں تضاد پائی جاتی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری کس حد تک اپنی سوچ اور کردارکو رواں رواں رکھتے ہیں ۔ڈاکٹر محمد طاہر القادری کو خلافت کا نظام لانے کے لیے کون کون لوگ ساتھ دیتے ہیں یا نہیںدیتے ۔اس بات میں شک نہیں کہ ڈاکٹر محمد طاہر القادری ایک اچھا رہنماء ہیں اس کم عمران خان ہیں مگر عمران خان کو اب ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ساتھ دینا چاہئے کیونکہ دوسرے سیاسی رہنماؤں پر زنگ لگ چکا ہے ۔ عوام میں عمران خان کی کسی حد تک مقبولیت باقی ہے۔
اٹھو کہ رہبر نے آواز دی ہے اٹھو کہ وقت نے پکارا ہے روزن ضمیر زندہ ہیں سوئے نہیں لبیک جا نارا صدا بلند ہمارا ہے ایوانِ باطل لرزاں ہے اس اہٹ سے ہیں ثابت قدم ، جانبِ منزل سفر ہمارا ہے
پاکستان کی عوام کی ڈاکٹر محمد طاہر القادری کا ساتھ دینا ضروری ہے کیونکہ اسلامی نظام سے ہی پاکستان کو بچایا جاسکتا ہے و دیگر پاکستان ہاتھ سے جائیگا اور ہم آنے والی نسل ریکارڈ دیکھ گالیا ں دیں گے۔ قادری کی باتین درست ہیں لیکن قادری صاحب میں بچپنا بھی کافی پائی جاتی ہے۔غیر ضروری باتیں اور زیادہ بڑھا چڑھا کر بیان بازی سے اسے خود پر کنٹرول کرنے کی ضرور ت ہے۔ کیونکہ ایک عالم دین سیاست دان اور صرف سیاستدان میں بہت فرق ہوتا ہے۔
بحرحال ! عمران خان سے حکومت کو ڈرنا چاہئے اور یہ حکومت اچھی طرح سمجھتی بھی ہے لیکن قادری کی سیاسی گراؤنڈ اتنی مضبوط نہیں کہ حکو مت کو ختم کرنے کے قادری دعوے کرتے ہیں ۔ یاد رہئے کہ گزشتہ روز خفیہ اداروں کی رپورٹ میں یہ بات سامنے آ ئی ہے کہ عمران خان کے کارکنان کی نسبت قادری کی کارکنان زیادہ انتشا ر پھیلاتے ہیں اور خطر ناک ہے۔ قادری صاحب صبر و تحمل کا مظاہرہ کریں اور ملک و قو م کو کوئی نقصان مت پہنچائیں۔