لاہور (جیوڈیسک) وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کے قوم سے خطاب کے ردعمل میں لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کا کہنا تھا کہ عوامی پریشر میں آکر جوڈیشل کمیشن کی بات کی گئی ہے۔
نواز شریف کی حکومت میں جوڈیشل کمیشن کیا کرے گا؟ نیچے سارے لوگ ان کے ہیں۔ جوڈیشل کمیشن بیٹنھے سے پہلے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو استعفیٰ دینا ہوگا۔
عدالتی کمیشن اس وقت کام کرے جب وزیراعظم اقتدار میں نہ ہوں۔ اس کے بغیر عدالتی تحقیقات قبول نہیں ہیں۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ حکومت جو مرضی کرلے 14 اگست کو ہر حال میں آزادی مارچ کیلئے نکلیں گے۔ اس وقت تک اسلام آباد میں رہیں گے جب تک ہمارے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے۔ حکومت فیصلہ کرلے، راستہ دے یا اپنی قبر کھود لے۔ یہ عوام کا سمندر ہے جسے کوئی نہیں روک سکتا۔
نواز شریف جو بھی ہو جائے ہم آپ کا مقابلہ کرینگے۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے اراکین سے بھی مستعفیٰ ہونے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر ووٹوں کی تصدیق نہیں ہو سکتی تو یہ کونسا الیکشن تھا؟۔
انہوں نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بیٹے سے اپنا پیسہ واپس لانے کا مطالبہ کیا۔ اس سے قبل دنیا نیوز کے پروگرام ” آن دی فرنٹ ”میں انٹرویو دیتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ موجودہ الیکشن کمیشن استعفیٰ دے اور نواز شریف کی حکومت کے خاتمے کے بعد سپریم کورٹ کا بورڈ دھاندلی کی انکوائری کروائے۔
عدالت تحقیقات کے بعد دھاندلی کرنے والوں کو انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ سپریم کورٹ کا بورڈ جو بھی فیصلہ کرے وہ ہمیں قبول ہوگا۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ ٹیکنو کریٹس کی نگران حکومت بنائی جائے اور اگلا الیکشن کروایا جائے۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ میری وزیراعظم میاں محمد نواز شریف سے کوئی ذاتی جنگ نہیں ہے۔
وزیراعظم کے قوم سے خطاب سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اسلام آباد میں آزادی مارچ ہر صورت ہوگا۔ آرٹیکل 245 سے بھی ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا، ہم نہیں رکیں گے۔ ہم اسلام آباد حقیقی آزادی لینے جا رہے ہیں۔ ضمانت دیتے ہیں کہ ہم مارشل لا نہیں لگنے دیں گے۔ گارنٹی دیتا ہوں کہ ہم آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اپنا احتجاج کرینگے۔
عمران خان سے سوال کیا گیا کہ کیا آپ کی ڈیمانڈ میں وزیراعظم کا استعفی شامل ہے جس کے جواب میں عمران خان کا کہنا تھا کہ وزیراعظم استعفیٰ دیں گے تو ری الیکشن ہو گا۔