اے اھل نظر ذوق نظر خوب ہے لیکن جو شے کی حقیقت کو نہ دیکھے وہ نظر کیا
حضرت علامہ اقبال کے اس شعر سے ایک لمبے عرصہ کے بعد مجھے یہ شرف نصیب ہونے لگا ہے کہ میں ایک ایسی ذات ایک ایسی موضبانہ شخصیت کے بارے میں کچھ کھ سکوں، کیونکہ ان کو جاننے اور پیچانے کے لیے اھل نظر ہونا ضروری ہے۔
وہ ایک ایسا مکمل انسیٹوٹ ہیں جس سے میرے جیسے بہت سے کم عقل اور کم فھم لوگ کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ایک عورت میں ایک ساتھ امور خانہ داری، مذہیب، سیاست، ملک کے لیے کچھ کر گزرنے کی فکر،ہر شعبہ زندگی میں صف اول رہنےکے گن پائے جاتے ہیں کئی کتابوں کی مصنفہ، صحافت کے شعبہ خواتین میں سرفہرست، مذہبی امور میں پیش پیش، پی ٹی آی فرانس کی مدر آف پی ٹی آئی،اور علم و فکر کا ایک سمندر بہت ہی کم ایسا ہوتا ہے کہ کسی ایک انسان میں ایک ساتھ یہ خوبیوں کا بحرپایا جائے اب آپ سوچ میں پڑ گے کہ آخر میں کس کی بات کر رہی ہوں تو بلا شک و شبہ میں کسی اور کی نہیں شاہ بانو میر صا حبہ کی بات کر رہی ہوں اور میرے پاس ان کی ذات کےبارے میں کچھ کہنے کے لیے الفاظ کی اتنی قلت ہے کہ اس گستاخی کے لیے ابھی سے معذرت خواہ ہوںـ ان کے تعارف میں میرا کچھ کہنا میری نظر میں سورج کو چراغ دیکھانا ہے،وہ فرانس کے اہل فکر کے سمندر میں ایک نایاب سیپ میں چھپا ایک ایسا انمول اور بیش قیمت موتی ہیں کہ بہت مشکل سے ہی نصیب ہوتا ہے اور اہل فرانس ان خوش نصیبوں میں سے ہیں جو اس انمول موتی کےموتیوں،اس انمول ہیرے کی چمک،اس علم کے سمندر سے مستفید ہو سکتے ہیں۔ فرانس میں یہ بات منوانے والی پہلی خاتون ہیں جنہوں نے یہ ثابت کیا ہے کہ خواتین گھر کی چار دیواری میں بھی ہوں تو اپنی جراتمندانہ صلاحتوں سے اپنے جنون سے ملک میں اور ملک کے باہر اپنا لوہا منوا سکتی ہیںـ
ان کے نام کو جانتے اور سنتے ہوے ایک عرصہ بیت گیا ان سے میری پہلی غائبانہ ملاقات”” دی جذبہ”” میں پبلش ہونے والے ان کے فکری آرٹیکلز کے ذریعے ہوئی،دل میں ایک خواہش نے جنم لیا کہ ان کو ملا جائے ان سے کچھ سیکھا جائے پر مصروفیات نے وقت نکالنے کا موقع نہ دیا اور اسی طرح شب و روز گزرتے چلے گے۔ سالوں گزرنے کے بعد میری ان سے بات کرنے کی خواہش پوری ہوئی اور اسکے لیے میں اٹلی پریس کلب کے صدر اور پی ٹی آی کے کورآرڈینٹر میاں آفتاب بھائی بریشیا والے کا شکریہ ادا کرتی ہوں کہ ان کی مرہون منت میری عزت مآب شاہ میر بانو صاحبہ سے بات چیت ہوسکیـ
اٹلی میں پی ٹی آی اٹلی کی گہماگہمی سے تو سارا میڈیا ہی واقف ہے انہی دنوں آفتاب بھائی نے مجھے سوشل نیٹ ورک فیس بک کےذریعے ایک پیغام ارسال کیا اور کہا کہ پیرس سے ان معزز خاتون سے آپ رابطہ کر سکتی ہیں ۔آپ ان کو اپنی لسٹ میں شامل کر لیں مجھے پہلے ہی کسی بہانے کی تلاش تھی اور وہ مل گیا شاہ بانومیر صاحبہ کو اپنی دوستانہ لسٹ میں شامل کیا اس کے بعد ان سے بات کرنے کا سنہری موقع ملا ،رسمی بات چیت ہوئیـ کچھ عرصہ بعد شاہ میر بانو صاحبہ کا پیغام موصول ہوا کہ وہ بقلم کے حوالے سے کچھ لکھنا چاہتیں ہیں ان کا یہ کہنا اور سوچنا ہی میرے لیے کسی سونے کے تمغے سے کم نہیں کیونکہ کوئی منجھا ہوا لکھاری جب آپ کو یہ کہے تو یہ بہت بڑی بات ہوتی ہے۔ شاہ میر بانو صاحبہ کی اس بات سے میں نے ان سے رابطہ کیا۔پہلی بار ان کی آواز جب فون پہ سنی توپہلی ہیلو میں ہی ان کی آواز کی مٹھاس نے کانوں میں رس گھول دیا ۔ان کے لہجے میں اتنی نرمی باتوں میں اتنی شائستگی کے کیا بتاوں ارادوں میں اتنی پختگی ملک کے لیے اتنی حب الوطنی،پی ٹی ئی کے لیے اتنا جنون کہ اس کا بیان کرنا دشوار ہے یہ جذبات وہی محسوس کر سکتا ہے جس میں خود ایسے احساسات پائے جاتے ہوںـ
انکا یہ کہنا کہ بقلم پی ٹی آئی کی کورآرڈنیٹر ہیں اس حوالے یہ وہ خواتین کے پارٹی کے جزبے کو مزید بڑھنا چاہتی ہیں اور میرا ان کو یہ کہنا کہ میرا تعلق پی ٹی آئی سے بس اتنا ہے جتنا ہر پارٹی سے پیارا رکھنے والے عام سے ممبر کو ہوتا ہے۔میں پارٹی کی کوئی عہدادار نہیں بس ممبر ہوں اور پارٹی کی بھلائی چاہنے والی۔ جب کہ شاہ میر بانو صاحبہ کو پی ٹی آی فرانس میں مددر آف پی ٹی آی کا اعزاز حاصل ہے اس بات سے آپ ان کے بڑےپن کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مددر آف پی ٹی آی فرانس ہوکہ وہ ایک عام ممبر سے رابطے میں اور اس عام سے ممبر کے بارے میں لکھنا چاہتیں ہیں ۔میں اپنے صحافت،سیاست اور شوشل ورک کے کاموں میں بہت کم ہی کسی سے متاثر ہوئی ہوں اور شاہ بانومیر صاحبہ ان میں سے ایک ہیں۔ اتنی خوش گفتار خاتون اتنی ہمدرد،ان سے گفتگو کر کہ کچھ نہ کچھ سیکھنے کو ضرور ملتا ہے انکی باتیں ایک مشعل راہ ہیں۔ان سے بہت سارے موضوعات پہ بات ہوئی بہت کچھ سیکھا ہی ہے گنوایا کچھ نہیں۔اب جب کہ ماشاءاللہ وہ دینی راہ پر گامزن ہیں اور خود کو ایک دینی طالبعلم کہنے سے نہیں شرماتی،اتنا علم اتنی سوجھ بوجھ رکھتے ہوئے بھی انکا ماننا ہے کہ میں اس سفر کی ایک طالب علم ہوں ورنہ آج کے دور میں یہ بات کم ہی سننے کو ملتی ہے جو کچھ سیکھ لیتا ہے وہ خود کو بہت بڑا عالم سمجھنے لگتا ہے پر یہ بات ان میں نہیں۔
Shahbano Mir
آخر بار جب میری ان سے فون پہ بات ہوئی تو ان کی ایک بات نے مجھ ناچیز کا دل جیت لیا فرماتی ہیں آج مجھ ایک دینی محفل میں کچھ خواتین نے جب سر پرست اعلی کہا تو میں نے عاجزی ا نکساری سے ان کو کہا کہ میری بہنوں سر پرستی و اعلی پن بس ایک ہی ہستی ہے اور وہ اللہ سبحان تعالی کی ذات ہے۔شاہ میر بانو صاحبہ میں کسی بھی خاص و عام کے لیے کوئی حسد کوئی جلن موجود نہیں ہر ایک کے لیے محبت اور اپنایت کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہے۔ میں نے چند ٹیلیفونک ملاقاتوں میں کبھی کسی خاص و عام کے لیے ان کے منہ سے ایک رائی کے دانے کے مطابق بھی کوئی برائی نہیں سنی۔ورنہ مشہور بات ہے ہمارے کلچر کی کہ جہاں دو خواتین اکٹھی ہوں وہاں کسی دوسری کی برائی نہ ہو کہ ممکن نہیں آج کل تو کوئی سیایسی جلسہ ہو یا مسجد میں کوئی محفل ہو تو یہ عنصر ہماری خواتین میں عام پایا جاتا ہے۔ شاہ بانو میر صاحبہ کا اخلاق ان کی ملک کی بقا کے لیے فکر پارٹی کے لیے نیک جذبات کو بیان کرنا کسی بھی لکھاری کے بس میں نہیں۔
شاہ بانومیر صاحبہ ہمارے ملک کے لیے اس کی سلامتی کےلیے بہت بڑا سرمایہ ہیں انکی قدراور عزت ہم سب کو کرنی چاہے اور سب سے بڑھ کر مجھ جیسے جتنے بھی سیکھنے والے ہیں ہم سب کو ان سے مستفید ہونا چاہے ،شاہ بانومیر صاحبہ جیسا کہ میں نے پہلے بھی ذکر کیا کہ وہ ایک مکمل انسیٹوٹ ہیں ان سے ہم سب کو کچھ نہ کچھ سیکھنا چاہے۔میں ان کے اخلاق و کردار،ان کی گفتار سے اتنی ان کی گرویدہ ہوں کہ دعا کرتی ہوں جلد ہی ان سے ملنے کا شرف بھی حاصل کر سکوں۔
ہم تمام پاکستانی خواتین خواہ وہ پاکستان میں ہیں یا پاکستان سے باہر ہم سب کو اس نایاب ہیرے کی قدر کرنی ہے اور ان کو اپنی اپنی زندگیوں کےلیے مشعل راہ تسلیم کرنا چاہیے۔ان سے ہمیں ملکی سیاسی اور مذہبی کلچرل تہذیب و تمدن کے معاملات میں کافی مدد مل سکتی ہے اور اس سب سے ہٹ کر ان کے اخلاق گفتار کو اپناتے ہوئے ان جیسی مٹھاس اور اپنا پن ہم اپنی ذات میں لا سکتے ہیں۔
اٹلی کی نسبت پیرس کی تمام پاکستانی کمونٹی اس لحاظ سے کافی خوش نصیب ہے کہ ان میں شاہ بانومیر صاحبہ جیسی مکمل شخصیت موجود ہیں اور وہاں کی کمونیٹی ان کی سوچ اور مشاورت کو برویے کار لا رہی ہے۔ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر اپنا آپ منوانا ہر پاکستانی خاتون کے بس میں نہیں شاہ بانومیر صاحبہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ ہیرا جہاں بھی ہو اپنی چمک سے اپنے ہونے کا احساس دلا سکتا ہے۔ اللہ پاک انکو لمبی زندگی و تندورستی عطا فرمائے آمین۔