بظاہر لگتا ہے بحران ٹل گیا۔۔مسلم لیگ ن کی حکومت بچ گئی جن کو بوٹوںکی چاپ سنائی دے رہی تھی ان کی حالت دیدنی ہے کچھ دن پہلے حالات اتنے نازک موڑ پر آگئے تھے کہ وزیروں، مشیروں کی ہوائیاں اڑگئی تھیںحواس باختہ بھانت بھانت کی بولیاں ہی بولتے رہتے ہیں میاں نواز شریف خاموش تھے اور شہباز شریف منظرسے غائب۔۔۔ہر شخص ایک دوسرے سے پو چھتا پھررہا تھا کیاہونے والاہے؟ہرشخص کے پاس نیا سوال او رنیا جواب تھا۔بحث مباحثہ کرنے والے تھک گئے اس ماحول میں عمران خان کو وزیر ِ اعظم نے متعددبار مذاکرات کی پیشکش کی جو انہوں نے یہ کہہ کر مستردکردی کہ اب جو بھی بات ہوئی 14اگست کے بعد ہو گی۔
اس دوران شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہرالقادری کے یوم ِ شہداء نے حکومت کو وخت ڈالے رکھا جس انداز سے شہر شہر مظاہرے، احتجاج اورقافلے روکنے پررد ِعمل ہوا ہے یہ احساس شدید ہو گیا ہے کہ عوامی تحریک پہلے کی نسبتاً ایک منظم،فعال اور متحرک پارٹی بن کرابھررہی ہے وہ الیکشن میں حصہ لے تو کئی نشستیں جیتنے کی پوزیشن میں ہے کئی دنوں حکومتی بوکھلاہت نے لاہور کوکئی دنوںسے کنٹینروںکا شہر بنا ڈالا ماڈل ٹائون اور قرب وجوارکے علاقے آج بھی سیل ہیں محسوس یہ ہوتاہے انقلاب مارچ کے دوران حکومت اور عوامی تحریک دونوں جانب سے طاقت کااستعمال ہوگا یہ بات تو سچ لگتی ہے کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ میں نا جائز اسلحہ نہیں ہے لیکن ڈنڈے سوٹے بھی ہتھیاروںسے کم نہیں ہوتے اب رفتہ رفتہ وزیر ِ اعظم کااعتمادبحال ہونا شروع ہوا ہے تو چہروںکی رونقیں بھی لوٹ آئی ہیں انہوںنے عمران خان اور طاہرالقادری سے نمٹنے کی مربوط حکمت ِ عملی بھی تیار کرلی ہے میں اب بھی کہتاہوں موجودہ سسٹم کو سب سے بڑا خطرہ طاہرالقادری سے ہے اور موجودہ حکمران ان سے خوفزدہ بھی۔۔۔ اس لئے غالب خیال ہے کہ حکومت نے شیخ الاسلام سے سختی سے پیش آنے کا فیصلہ کرلیاہے اس لئے انہیں گرفتارکرنے کی ہرممکن کوشش کی جائے گی جس پر حالات خراب ہونے کا قوی خدشہ ہے۔
جبکہ اس وقت تو ایساہی لگ رہاہے طاہرالقادری نے اپنی تمام ترکشتیاں جلادی ہیں اب اگر ان کی جدوجہدبے اثرہو جاتی ہے تو پھر وہ کبھی اتنی شدت سے تحریک چلا پاتے ہیں یانہیں۔۔پھر انہیں موقعہ ملتاہے یا نہیں۔۔پھر زندگی وفا کرتی ہے یا نہیں اس کا فیصلہ بہرحال تو وقت کرے گا۔۔۔ لیکن ایک بات ہے طاہرالقادری گذشتہ کئی سالوںسے جن انتخابی اصلاحات کی بات کررہے ہیں اس کے متعلق کوئی بھی بات کرنانہیں چاہتا ان کی کئی باتوںمیں صداقت ہے مثلاًانکا کہناہے موجودہ نظام میںعام آدمی کاالیکشن جیتنا ناممکن ہے تو اس میں شک وشبہ کی کوئی گنجائش ہی نہیں ہے۔
حکمرانوںکو طاہرالقادری کی شخصیت اور مشن سے اختلاف کا حق توہے لیکن عوام کی بہتری کیلئے جو ان کے پاس پروگرام ہے اس پر غورضرورکیا جانا چاہیے اس میں کوئی شک نہیں میاں نواز شریف کا جادو ابھی تک سیاست کے سر پر چڑھ کر بول رہاہے یہ بلا شبہ ان کی مقبولیت کی معراج ہے کہ پاکستان کی حالیہ تاریخ میں ان سے مقبول لیڈر پیدا نہیںہواجس نے اپنے بیشتر ہم عصر سیاستدانوںکو میدان ِ سیاست سے آئوٹ کردیا اور میاں نواز شریف کے شیر کے بارے میںتو اب لوگ ایک دوسرے کو میسج بھیجتے رہتے ہیں کہ چودہ سال کا بھوکا شیر گوشت کے ساتھ ساتھ آٹا، ٹماٹر، ادرک، پیاز۔۔الغرض کہ ہر چیز ہڑپ کرتا چلا جارہاہے اور کوئی پوچھنے والا نہیں۔۔اور اس حکومت نے عوام کو حالات کے رحم و کرم پر لا چھوڑاہے جسے منتوں مرادوںسے اقتدار میں لائے تھے اب یہ تو قوم کو معلوم نہیں میاں صاحب کو اقتدار ملا ہے۔۔۔ اختیار بھی ملا کہ نہیں۔۔۔ شاید اسی لئے لاپتہ افراد بازیاب نہیں ہورہے۔۔۔ بلدیاتی انتخابات کے معاملہ میں صوبائی حکومتیں صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں۔۔۔تفسیر بنی بیٹھی ہیں۔۔۔ مہنگائی، افراط ِ زر،غربت،لوڈشیڈنگ ،نا خواندگی،مہنگی تعلیم،علاج معالجہ کی سہولتوںکی عدم دستیابی اور دیہات سے لے کر میٹروپولیٹن تک عوامی مسائل ایک سنگین مسئلہ بنے ہوئے ہیں اور شاہ کے مصاحبوںکو مولا جٹ بننے سے فرصت نہیں۔
بنا ہے شاہ کا مصاحب ۔پھرے ہے اتراتا وگرنہ شہر میں غالب کی آبرو۔ کیا ہے؟
Tahir ul Qadri
شریف فیملی تو اس لحاظ سے بھی لکی ہے کہ اب تلک پاکستانی نسل در نسل ان سے محبت کرتے چلے آرہے ہیں ان کے نام کا سکہ رائج الوقت ہے اس مقبولیت کو برقرار رکھنا کوئی آسان کام نہیں ورنہ وحید مراد جیسا خوبرو چا کلیٹی ہیرو عروج کے بعدزوال کا جھٹکا برداشت نہ کرپایا۔۔ شیخ الاسلام پروفیسر ڈاکٹر طاہر القادری جس کو سب جانتے ہیں۔۔۔جس کو سب مانتے ہیں جو ایک بارپھر ایک نیا انقلاب لانے کیلئے وطن واپس آئے ہوئے ہیں شیخ الاسلام کے تیور دیکھ کر میاں نواز شریف یہ کہنے پر مجبور ہو گئے۔
یہ کن نظروںسے تو آج دیکھا کہ تیرا دیکھنا ۔۔۔دیکھا نہ جائے
بہرحال ایک بات بڑی اہم ہے کہ شریفوں کے مقابلے میں عمران خان کی قیادت میں شیخ اکھٹے ہو گئے ہیں اسی لئے حکومت کو وخت پڑ گیاہے۔کہتے ہیں عروج کو زوال ایک تلح حقیقت ہے جسے بیشترلوگ تسلیم نہیں کرتے ا ب جو میاں نواز شریف پر چاروں اطراف سے یلغارہورہی ہے کیا یہ ان کے زوال کا نقطہ ٔ آغازہے ویسے شریف برادران کی پر فارمنس اتنی اچھی نہیں تو اتنی بری بھی نہیں مگر اس کے باوجود عوام کی اکثریت تبدیلی چاہتی ہے یہ تو ملک میں حقیقی قیادت کا فقدان ہے ورنہ جیسے انقلاب اور آزادی مارچ کا شور غوغا مچاہے دو چار دنوں میں تخت یا تختہ ہو جاتا مسائل کے مارے عوام بکل مارے چپ شاہ بنے ہوئے ہیں وہ خوفزدہ ہیں کہ یہ جو آدھی چپہ مسی لونی روٹی کھانے کو مل رہی ہے کہیں یہ بھی دسترس سے باہر نہ ہو جائے ورنہ دریا جھوم اٹھتے اور حقیقتاً سونامی برپاہو جاتا ۔۔۔کوئی فرد عقل ِ کل نہیں ہوتا۔۔تنہا فیصلے کرنا فرعونیت کے مترادف ہے کہتے ہیں دیوارسے بھی مشورہ کرلینا چاہیے لاہور اور اسلام آبادکو کنٹینروں کا شہر بنانے سے پہلے خوب مشاورت کرنی چاہیے تھی انقلاب اور آزادی مارچ سے خوفزدہ چہرے ڈھنگ کا مشورہ بھی نہیں دے سکتے ورنہ عمران خان کے پرزور مطالبہ پر چار حلقے کھول دئیے جاتے تو قیامت نہیں آجانا تھی اور شاید وہ کچھ نہ ہوتا جو ہورہاہے اس وقت تو یک نہ شد دوشد والا معاملہ درپیش ہے اب بھی اگر فہم و فراست سے کام نہ لیا گیا تو لاہور میں حالات گھمبیرہو سکتے ہیں میاں نواز شریف کو معاملات کی سنگینی کا ادراک ہونا چاہیے۔
بظاہر لگتا ہے بحران ٹل گیا۔۔مسلم لیگ ن کی حکومت بچ گئی جن کو بوٹوںکی چاپ سنائی دے رہی تھی ان کی حالت دیدنی ہے لیکن جناب میاں نواز شریف صاحب!آپ کو تنہائی میں ضرور غورکرنا چاہیے تیسری باروزیراعظم بننے کے باوجود عوام کی حالت کیوں نہیں بدلی ان کے حالات ویسے کے ویسے کیوں ہیں؟لاہور جیسے شہر میں بھی عوام بنیادی سہولتوںسے محروم ہیں ۔۔بیشترآبادیوں میںپینے کاپانی گندا ہے۔۔
غربت ،مہنگائی بیروزگاری سے لوگ پریشان ہیں،لوڈ شیڈنگ سے معیشت مفلوج ہوتی چلی جارہی ہے۔ آپ کے دور ِ حکومت میں بھی چائنہ سے آنے والے ریلوے انجنوں اور نندی پور پاور پر اجیکٹ سے قوم کو کھربوں کا نقصان برداشت کرنا پڑاہے تو پھر ترقی کے دعوے کیسے؟۔۔ سڑکیں،پل،عمارتیں بنانا ہی ترقی کا معیارہوتا تو غریب کبھی خودکشی نہ کرتے۔۔۔بحران آتے رہتے ہیں ،زندہ قومیں چیلنجز کا سامنا کرنا جانتی ہیں۔اللہ تعالیٰ نے آ پ کوعوام کی خدمت کیلئے چناہے یہ کوئی کم اعزاز نہیں ۔۔ لوگوںکو موجودہ حکومت سے بہت امیدیں اور میاں نوازشریف سے بہت سی توقعات ہیں عوام کو مایوس نہ کریں ا ب بھی میاں صاحب آپ نے عوام کیلئے کچھ نہ کیا تو یقینا تاریخ آپ کو معاف نہیں کرے گی صدائے جرس ہے عروج کو زوال آتے دیر نہیں لگتی۔