پاکستان کے قیام کا سب سے بڑا مقصد یہ تھا کہ یہ ایک ایسی آزاد مملکت ہو جہاں ایک مسلمان اسلامی اصولوں کے عین مطابق خود مختاری اور آذادی سے اپنی ذندگی گزاری سکے۔لیکن ماضی کو بھول کر اگر صرف آج کے موجودہ حالات کی بات کی جائے تو یہاں آج نہ تو اسلامی بلکہ نہ ہی کوئی انسانی اصولوں کے مطابق اپنی ذندگی گزارتا نظر آ رہا ہے۔ یہاں ایماندار وہ ہے کہ جسے بدقسمتی سے بے ایمانی کرنے کا کوئی موقعہ نہیں ملتا ۔اگر موقعہ ہاتھ لگ جائے تو وہ کسی قسم کی کوئی کسر نہیں چھوڑتا۔قائداعظم نے اپنے ایک خطاب میں فرمایا تھا کہ’ ہم جتنی ذیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے اتنی ہی ذیادہ پاکیزہ ، خالص اور مظبوط قوم کی حیثیت سے ابھریں گے جیسے سونا آگ میں تب کر کندن بن جاتا ہے۔’ بے شک آزادی حاصل کرنے کے لیے تکلیفیں اور قربانیاں لازم و ملزوم ہیں ۔کیونکہ آزادی کوئی اتنی با آسانی اور بازار میں مول ملنے والی شیء نہیں ۔اس کے لئے اگر کوئی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے تو وہ ہے خون کی قیمت ۔ہاں پاکستان جب آزاد ہو تھا تو دنیا کے نقشے پر ہماری قوم ایک سونا بن کر ہی ابھری تھی ۔لیکن آج ہمارے اپنے ہی اعمالوں کی وجہ سے ہماری چمک مانند پڑتی جا رہی ہے۔ہمارے شہیدوں نے اپنا لہو اس لئے نہیں بہایا تھا کہ بعد میں ہم ایک دوسرے کاہی خون بہاتے پھریں۔اس کے پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں لیکن آپس میں گتھم گتھا۔
اس آزاد ملک کو حاصل کرنے کی خاطر لاکھوں لوگوں نے اپنی جان تک کی قربانیاں دیں۔تکلیفیں برداشت کیں ،ننھے بچوں کے پیٹوں میں میخیں گاڑھی گئی۔لوگ اپنے گھروں سے بے گھر ہوئے۔اور بس مختصر یہ کہ بے شمار ایسی ایسی اذیتیں اٹھائی کہ جن بیان کرنا تو دور ان کا تصور آتے ہی روح تک لرز جاتی ہے۔لیکن یہ سب کس لئے کیا کہ ہم ایک آزاد ملک میں اپنی منشا کے مطابق سکھ کا سانس لے سکیں اور باہم اتفاق پیار محبت سے اپنی ذندگی گزار سکیں۔لیکن انتہائی افسوسناک اور سو فیصد درست حقیقت یہ ہے کہ بظاہر تو ہمارا ملک آزاد ہے لیکن اس کی عوام آج بھی قید میں ہے اور وہ قید کیسی ہے یہ بھی جانیںکہ پاکستان کی عوام آج بھی غربت ،مہنگائی ، بے روذگاری،فاقہ کشی، لوڈشیڈنگ ، فرقہ واریت، انتہاپسندی، دہشت گردی ،خود غرضی، حقوق کی پامالی، سہولیات کے فقدان، غیر جمہوری نظام ، غیر یقینی صورت حال، شر پسندی،لوٹ مار اور بدعنوانی جیسی لعنتوں میں تاحال بری طرح جکڑی ہوئی ہے۔اب غور کریں کہ کیا ہم میں سے کوئی ایک شحص بھی ایسا ہے کہ جس کوایسی صورت حال کا سامنا نہ ہو۔صرف ذمین کا خطہ یا ٹکڑا حاصل کر لینا ہی مکمل کامیابی یا آذادی کی علامت نہیں۔بلکہ حقیقی آذادی تو ہمیں تب ہی حاصل ہو گی جب ہم ان تمام مسائل سے آزاد ہو پائیں گے۔اور اس دلدل سے نکلنے کے لئے ہمیں صرف حکومتی ہی نہیں بلکہ اپنے تئیں بھی کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔لیکن ہم کسی طور بھی سنجیدہ نہیں رہے ۔ہم تو احتجاج بھی یوں کرتے ہیں کہ جیسے پِکنک منا رہے ہوں۔اس خانہء جنگی جیسے حالات میں ہم آزادی وطن کا جشن اتنے جوش و خروش سے مناتے ہیں کہ کمال ہے بھئی ۔ہمارا ہر فرد نوبل پرائز کا حقدار ہے۔لہذا ہر حال میں خوش رہنے والی اس قوم کو تہہ دل سے وطن کی آذادی کا جشن مبارک ہو۔
Independence Day
ہماری سب سے بڑی خوش قسمتی یہ ہے کہ ہم اچھے وقت میں ایٹمی قوت کے خزانے سے مالا مال ہوئے۔ جس کی بدولت آج بھی ہمارے دشمنوں کے ناپاک ارادے ان کے ذہنوں میں جنم لیتے ہی فوراً سبوتاژ ہو جاتے ہیں۔لیکن شرمناک بات یہ ہے کہ ان کے ارادوں کی پھر بھی تکمیل ہو ہی رہی ہے۔ کیونکہ جیسی تباہی وہ چاہتے ہیں وہ آج پاکستان کی عوام خود ہی کر رہی ہے۔آپس میں ہی ایک دوسرے سے نفرت اور خون کی ہولی کھیل کر۔مسلمان ہی مسلمان کو مار رہا ہے ۔اور پھر دونوں ہی شہید کہلائے جا رہے ہیں۔ یہ انسانی شعور کی تذلیل اور حماقت کا اعلی مقام ہے۔ یوم آزادی کو ایک بڑا ہی پر اسرار دن بنا دیا گیا ہے۔ انقلاب اور آزادی مارچ کے نعروں نے عوام میںتذبذب اور تجسس کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔اسی آڑ میںان تک کئی قیمتی جانوں کا ضیاع بھی ہو چکا ہے ۔ اور انسان کے ذہن میں ہل جل مچی ہے کہ 14 اگست کو کیا ہونے والا ہے اورلگتا ہے کہ کچھ نہ کچھ ہو کر ہی رہے گا۔
چاہے موجودہ حکومت عوام ابھی تک عوام کی فلاح کے لئے کوئی ایسا خاطر خواہ کام نہیں کر سکی کہ جس سے ایک غریب آدمی کو ذاتی فائدہ پہنچے ۔ لیکن انقلاب لانے والے یہ لوگ بھی نہ تو فی الوقت اپنے وطن سے مخلص ہیں اور نہ ہی اس وطن کی عوام سے ان کا اصل مقصد تو بس موجودہ حکومت کا تختہ الٹانا ہے۔جو انہیں اقتدار میں کسی طور بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ ان کے نزد یک ان کی اپنی ذات کو اور پاکستانی عوام کو درپیش سب سے بڑا مسئلہ موجودہ حکمران ہی ہیں۔
دیکھیں اب یہ پہاڑ کھود کر سونا نکالتے ہیں یا کہ چوہا۔ جس حکومت دوسری سہولیات تو الگ آلو کا ریٹ ہی 100روپے کلو تک جا پہنچے تو وہاں انسان نے کیا کھانا اور کیا پینا ہے۔ خانہء جنگی کے حالات پیدا کر دئیے گئے کاروبار مکمل ٹھپ ہو چکے ہیں۔ صو بہ بھر میں کنٹینرز کی نمائش نے نقل و حمل محدود نہیں بلکہ ختم ہی کر دی ہے۔ اب سوچے کہ کیا ہم آزاد ہوتے ہوئے بھی قید نہیں۔اس وقت ہمیں باہم تعاون اور اتحاد کی اشد ضرورت ہے۔