ہمارے ملک میں جمہوریت کی مثال اس ٹنڈ منڈ درخت کی سی ہے جو سایہ دیتا ہے نہ پھل۔اس سال خوردہ بے فیض شجر کی لکڑی تک ناکارہ ہے۔زمین سے اسکاجڑا رہنا نہ اس کے کارآمد ہے نہ خلق خدا کے لئے بھلائی کا سبب ۔اس کا بہترین مصرف یہی ہے کہ اسے آگ لگا دی جائے ۔لیکن افسوس اس کو تیلی دکھانا بھی تو ماحولیاتی آلودگی کو ہوا دینے کے مترادف ہے۔اب سوال یہ ہے کہ یہ موجود کیوں ہے اور”stick holders” نے اس کا روگ آخر کیوںپال رکھا ہے؟تو اسکا جواب ہے کمپنی کی مشہوری اوربڑوں کا حکم ۔تین انتخابات تک اس ٹنڈ منڈ درخت کو بہار کا ناٹک بھی تو رچانا ہے۔ہمارے چھوٹے بڑے اچھے برے سارے” stick holders ”تب تک جمہوریت جمہوریت کا لاگ الاپتے رہیں گے اورآئین کی بالادستی ،قانون کی حکمرانی ،جمہوریت کی بقا اور پارلیمنٹ کے وقار کی باتوںپر دھمال جاری رہے گا۔
ان کے لئے ہر موسم بہار کا موسم ہے ۔آمریت ہو یا جمہوریت ،یہی لوگ ایک چہرے پر کئی چہرے سجائے آگے آتے یا لائے جاتے ہیں۔پچھلے چھیاسٹھ سال سے یہی سب کچھ ہوتا رہا ہے اور ناجانے آئندہ کب تک ہوتا رہے گا۔جمہور کی خواہشات ،توقعات اور ترجیحات سے لاتعلق جمہورت”وہی ہے چال بے ڈھنگی… جو پہلی تھی سو اب بھی ہے ”کے مصداق اپنا وجود برقرار رکھتے ہوئے ہر دم رواں دواں ہے۔
70کی دہائی سے ہماری قومی سیاست میںجمہوریت اورآمریت یوں ”رل مل”گئے ہیں خالص جمہوریت یا خالص آمریت کو ڈھونڈا ناممکن ہوگیا ہے۔ آمر خود کو جمہوریت پسند ثابت کرتے چلے آئے ہیں تو جمہوریت کے دعوے داروں کے ہر عمل سے آمریت کی بو آتی ہے۔ستر کی دہائی سے پہلے تک تو خیر ہم خالص آمریت کی قید میں رہے ۔پھر جمہوریت آئی تو اس شان سے کہ آدھا ملک گنوا کر ایک آئین ہمارے ہاتھ آیا۔پھر جمہوریت نے الیکشن پر ہاتھ صاف کرنا چاہاتو اسلام پسند ملک میں ایک انقلاب لے آئے۔ایک ایسا انقلاب جس کی تباہ کن اثرات اور آفٹر شاکس اب بھی باآسانی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔آمریت فضا میں تباہ ہوئی تو میاں اور بی بی کی رسہ کشی نے 90کی دہائی میں ملک کو ایک ایسی دلدل میں دھکیل دیا کہ اب تک یہ ملک اس سے باہر آ سکا ہے نہ دو قدم آگے چل پایاہے۔
پھر ایک وردی پوش بہادر نے ملک کو یرغمال بنا کر جو چاہا سو کیا۔اس کی رخصتی کے بعد سے یہ دوسری جمہوری حکومت ہے جسے کچھ حلقہ بادشاہت کا جدید ورژن قراردیتے ہیں۔ ملک آج پھر سے ”میرے عزیز ہم وطنو!” کی بازگشت سے گونج رہا ہیتو اس میں بھی ستر کی دہائی کی ”جمہوریت” 80کی دہائی کی آمریت ،90کی دہائی کی فسطائیت اور 21ویں صدی کے پہلے عشرے کی”جدیدیت ”کے سارے رنگ دکھائی دیتے ہیں ۔اس سب کیخلاف وہ دو افراد میدان میں ہیںجنہیں اب تک انکا حصہ ملا ہے نہ باری نصیب ہوئی ہے۔قادری جی کوغیر ملکی شہریت سے جدائی منظور نہیں شہادت منظور ہے۔وہ انقلاب کی بات کرتے ہیں کہ ان کا سربراہ مملکت بننا کسی انقلابی معجزے کا ہی نتیجہ ہو سکتا ہے۔کپتان کو الیکشن کی شفافیت کاغم کھائے جاتا ہے۔
پچھتر لاکھ ووٹ(باوجود دھاندلی کے) لیکر انہیں نے کامیابی کی خوشبو کو محسوس کرنا شروع کر دیا ہے۔باقی رہی شریف حکومت تو وہ ریاستی جبر کے ذریعے ان دونوں ”فسادیوں ” کو کچلنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔گویا ہر کوئی اپنی اپنی پچ پراپنے اپنے انداز سے کھیل رہا ہے۔یہ سب چوکے چھکے لگانے کی فکر میں ہیں ۔ایسے میں اسٹمپ ،بولڈ یا کیچ آؤٹ ہو جانے کی فکر کسی کو نہیں۔تینوں فریق بند گلی میںبند ہیں اور واپسی کی راہیں مسدود ہوچکی ہیں ۔کھیل اب آخری پاور پلے کے مرحلے میں داخل ہوگیاہے۔اب تک تو امپائربظاہر غیر جانبدار دکھائی دیتے ہیں ۔ پریشر میں بھی وہ غیر جانبدار رہ پائیں گے ؟پردہ اٹھنا چند دن کی دوری پر ہے۔
Independence Day
آج جبکہ ہم اپنی آزادی کا 67واں یوم آزادی منانے لگے ہیں تو یہ احسا س حوصلہ شکن ہے کہ ہم نے اپنے ماضی سے نہ کوئی سبق سیکھا ہے نہ سیکھنے کی فکر ہے۔آزادی کا دن کسی بھی قوم کیلئے تاریخی اہمیت کا حامل ہوتا ہے ۔لیکن ہمارے یہاں کا تو باوا آدم ہی نرالا ہے۔دشمن ہمیں مٹانے پر کمر بستہ ہیں ،فوج داخلہ دہشت گردی کے خلاف برسرپیکار ہے اور ہم اس کے قیام کے حوالے سے اپنے اپنے نظریات کے ٹھیلے سجائے پھرتے ہیں ۔ابھی کل ہی ایک اہل قلم نے لکھا کہ یہ ملک انگریزوںکی سازش کا ثمر ہے۔یہ شاید واحد ملک ہے جہاں مقامی”دانشوروں” کو اس کا قیام ،بقا اور استحکام ہضم ہونے میں نہیں آتا۔کیسی مضحکہ خیز صورت حال ہے کہ ایک کہتا ہے ”پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور دوسرا کہتا ہے ”الف با تا۔ ایسے ماحول میں اپنے دیسی سیاست دانوں کا حال کیسے بہتر ہو سکتا ہے ۔قوم تجربے، تبدیلی اورانقلاب کی زد میں ہے۔
ہر طبقہ اپنی اپنی بات پر اڑا ہوا ہے ۔اسے اپنے سوا باقی سارے غلط لگتے ہیں ۔حق اپنی ذات میں محدود و مرکوز دکھائی دیتا ہے۔اگر ان کی کیفیت کو قریب سے دیکھنا ہو کسی بھی نیوز چینل کا کوئی سا ٹاک شوز ملاحظہ فرما لیں ۔کہتے ہیں زندگی بہت اچھی تھی جب ایپل اور بلیک بیری صرف ”پھل” ہوا کرتے تھے۔ٹی وی بھی ایک بہترین تفریح تھی جب ٹاک شوز کی بجائے ڈرامے بطور تفریح دیکھے جاتے تھے۔پوری قوم کو پچھلے کئی ہفتوں سے سیاست کا بخار چڑھا ہے اور حیرت کی بات دیکھیں کہ مریض بنا دوائی کی بھی شانت دکھائی دیتا ہے۔من موجی قوم مداریوں کی ڈگڈگی پر سر دھنتی کیسی معصوم دکھتی ہے؟یوں جیسے ابھی جادو کی چھڑی گھومے گی تو خوشحالی کے بند دروازے ایک ساتھ کھلتے چلے جائیں گے۔یہ سارا تماشا عوام کے ذوق ہی کا تو رہینِ منت ہے۔
اوپر سے میڈیا نے بھی ان کے شوق کی چابی خوب بھری ہے۔کوئی نہیں جانتا کہ اس ایکشن سے بھرپور ڈرامے کا انجام کیا ہوگا ؟ہماری حالت اس موالی کی سی ہے جو” ون کولا” کی ریڑھی پر گیا اور اس سے بوتلیں کھولنے کی فرمائش کر ڈالی۔مستعد ریڑھی بان نے ایک کے بعدایک بوتل ”ٹھا ہ” کر کے کھولنے کی شروع کر دی ۔جب کھلی بوتلوں کا ایک کریٹ ختم ہوا تو موالی کا خوب ”سیر ” ہوگیا۔اب اس نے قدم آگے بڑھائے تو ریڑھی بان نے چیخ کر کہا ”او… بھائی بوتلیں پی لواور پیسے بھی نکالو۔اس پر وہ بڑی معصومیت سے دانت نکال کر بولا ”میں نے بوتلیں کہاں پینی تھیں ،میں تو صرف ”ٹھاکے” سننے آیا تھا”۔تو جناب مداری ہوں یا تماشائی ”ٹھاکے ”سننے کو بے تاب ہیں ۔اور اس موالی کی طرح ان کو بھی اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ اس کی قیمت مانگ لی گئی تووہ کیا کریں گے۔ظاہر ہے اسی کی طرح کہیں گے کہ وہ توصرف” ٹھاکے” سننے آئے تھے۔
انتہائی دکھ ہو رہا ہے کہ ہمارے سیا ست دانوں کو آزادی کا جشن دھوم دھام سے منانے کا خیال آیا بھی توکچھ اس طرز سے کہ خیر کا پہلو ڈھونڈے نہیں ملتا۔ایک ایسا دن جو قوم کو جوڑنے کا باعث بننا تھا انا کی بھینٹ چڑھا دیا گیا۔شاید کسی قوم نے اپنی آزادی کا جشن اس انداز سے کبھی نہیں منایا ہوگا کہ اپوزیشن میلہ لگانے اور حکمران طبقہ میلہ اجاڑنے پر آمادہ ہوں۔اپوزیشن عوام کو سڑکوں پر لانے اور حکمران انہیں غائب کرنے ،گھروں میں محصور کرنے اور بیرکوں میں قید کرنے کو بے تاب ہوں۔ کیااس طرز عمل سے اس تاثر کو تقویت نہیںملے گی کہ اقتدار کے ساتھ ساتھ آزادی کا جشن منانے پر بھی صرف ن لیگ کا حق ہے۔
ایک عام آدمی بھی یہ سمجھ رہا ہے کہ جشنِ آزادی کی آڑ میں کوئی حکومت بچانے کے چکر میں ہے تو کوئی حکومت گرانے کے ۔باقی رہے عوام یا پاکستان کا استحکا م تو وہ جائیں بھاڑ میں ۔حکومت کی شاندار کارکردگی کپتان اور قادری کو ایک پیج پر لے آئی ہے۔یہ دونوں ایک ساتھ اسلام آباد میں لینڈ کریں گے تو کیا ہوگا ؟…. یہ تو شاید دونوں فریق بھی نہیں جانتے۔دعا ہے کہ جو بھی ہو اچھے کیلئے ہو(اگرچہ یہ ہر دو میں سے کسی کا مقصود نہیں) ۔میرا دل تو اس بات پر مغموم ہے کہ کرسی کے کھیل نے مجھ سے میری آزادی کا دن چھین لیا ہے ۔میری آزادی کو دن دہاڑے اغوا کر لیا گیا ہے۔میں بھی کتنا بے بس ہوں کہ کچھ بھی نہیں کرسکتا۔یہ دن آپ کے لئے بھی تو اتنی ہی اہمیت کا حامل ہے ۔ کیا آپ اسے بازیاب کرا سکتے ہیں ؟؟؟؟؟