ملک کی موجودہ سیاسی صورتِ حال ایک نیا مسلہء ! یا تاریخ کا حصہ؟ جب سے پاکستان وجود میں آیا ہے اس دن سے لیکر آج تک ہر پاکستانی یہ امید لگائے بیٹھا ہے کہ شاید اس ملک اور اسکے عوام کے نصیب میں بھی کوئی ترقی یاخشحالی ائے۔مگر بد قسمتی سے قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک اس ملک کا اقتدار ہمیشہ نا لائق اور نا اہل لوگوں کے ہاتھ میں رہا ہے اور تا حال یہ سلسلہ جاری ہے۔
ایک سیاسی جماعت بر سرِ اقتدار آتی ہے تو دوسری جماعت ملک و ملت کی ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے حکمران جماعت کی ٹانگیں کھینچناشروع کردیتی ہے۔اورجب دوسری جماعت اقتدار سمبھالتی ہے تو پہلی جماعت اسکے خلاف اپنی مہم کا اعلان کر دیتی ہے اور اسی طرح یہ سلسلہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک چلا آرہا ہے جس کا فائدہ ہمیشہ سے سیاستدان طبقے کے حصے میں آیا ہے جبکہ اسکا ناقابلِ تلافی نقصان ہمیشہ سے عوام کا مقدر بنا۔
موجودہ سیاسی صورتِ حال بھی کچھ ایسا ہی منظر نامہ پیش کر رہی ہے۔ایک طرف تو عمران خان صاحب انتخابات میں دھاندلی کے خلاف سراپئہ احتجاج ہیں جبکہ دوسری جانب ایک مذہبی جماعت کے رہنماء طاھر القادری صاحب حکومت مخالف تحریک چلائے ہوئے ہیں۔طاھر القادری صاحب کے ساتھ مسلم لیگ(ق)، عوامی مسلم لیگ، مجلسِ وحدت المسلمین اور سنی اتحاد کونسل متحد ہیں جبکہ دوسری جانب عمران خان صاحب کے لانگ مارچ کے سلسلہ میں پاکستان تحریک انصاف مکمل طور پر پر عزم نظر آرہی ہے۔
اس کے علاوہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن جماعت پاکستان پیپلز پارٹی نے بھی حکومتی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا کہ حکومت اپنی سمت کو درست کرے۔جبکہ دوسری جانب کچھ جماعتیں فریقین کے ما بین معاملات کو افہام و تفہیم کے ساتھ حل کر نے کیلئے سر گرمِ عمل ہیں جن میں جمعت اسلامی، متحدہ قومی موومنٹ وغیرہ شامل ہیں۔
اب اس ساری سورتِ حال میں ایک باات تو واضع ہو چکی کہ تقریباََ ایک سال قبل بر سر اقتدار آنے والی حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کیلئے دن بدن چیلنجز بڑہتے جارہے ہیں اور حکومت کیلئے اپنا اقتدار سمبھالنا مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے۔اس ساری سیاسی صورتِ حال میں بنیادی طور پر ایک سوال جنم لے تا ہے کہ اگر دیگر جماعتوں کا حکومت مخالف اتحاد حکومت گرانے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو پھر کیا ہو گا؟کیا آنے والی حکومت بہتر طور پر اور عوامی تواقعات کے مطابق کامکر سکے گی؟کیا اس بات کی کوئی گارنٹی ہے کہ آنے والی حکو مت کو مخالفین کی جانب سے اس قسم کی مخالفت کا سامنا نہ ہوگا؟
Pakistan Government
یہ وہ چند بنیادی سوالات ہیں جو موجودہ سیاسی سورتِ حال میں ہر پاکستانی کت ذہن میں جنم لے رہے ہیں۔کیونکہ اس سیاسی سورتِ حال میں ایک بات تو طے ہے کہ اگر اس حکومت مخالف تحریک کے نتیجہ میں مسلم لیگ (ن) کی حکومت جاتی ہے تو پھر آنے واالی حکومت کو بھی کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیونکہ اگر آج حکومت مخالف جماعتیں حکومت کے خلاف متحد ہو سکتی ہیں تو کوئی بعید نہیں کہ کل کو کسی بھی جماعت کی آنے والی حکومت کو بھی ایسی ہی سورتِ حال سے دو چار ہونا پڑجائے اور نتیجتاََ ملک مزید سیاسی بحران کا شکار ہوتا چلا جائے۔
اوراگر ایسا ہوتا ہے تو پھرہمیں یہ بات یاادرکھنی چاہئے کہ ایسے کسی بھی قسم کے بحران کے بتیجہ میں اس ملک کے کسی بھی سیاستدان کا کچھ نہ بگڑے گا۔نہ توشریف برادران کا کچھ جائے گا تو نہ ہی خان صاحب کی شان میں کوئی فرق پڑے گا۔نی چو ہدریبرادران کے پروٹوکول میں کو ئی فرق پڑے گا تو نہ ہی قادری صاحب کی رو ٹیاں بند ہوں گی۔ہاں نقصان ہو گا تو صرف و صرف غریب عوام کا جنکو شاید دووقت کا کھانہ بھی میسر نہیں۔مگر ہمارے مخلص سیاستدانوں کو اس عوامی معیارِ زندہ گی سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ وہ لوگ یہ بات جانتے ہیںکہ حالات جیسے بھی ہوں کم از کم ان کے معیارِزندہ گی میں کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ہمارے سیاست دانوں کو اگرغرض ہے تو اپنی حکومت کے استحکام سے ہے۔ہمارے سیاستدانوں کو اگر غرض ہے تو مڈ ٹرم الیکشنز سے ہے۔انکو اگر کوئی گرض ہے تو نام نہاد انقلاب کی آڑ میں اپنے مفادادکے حصول سے ہے۔عوام کیا ہے؟ کون ہے؟ ان باتوں سے انکا کوئی تعلق نہیں۔
لہذا موجودہ سیاسی حالات کوئی نیا مسلہء نہیں بلکہ تااریخ اس بات پے شاہد ہے کہ قیامِ پاکستان سے لیکر آج تک بد قسمتی سے اس ملک کو کوئی بھی ایسا لیڈر نہیں ملا کہ جسکی ترجیحات میں کہیں عوامی فلاح و بہبود بھی ہو۔اور عوام ہمیشہ سے ہی پستی آرہی ہیں۔آ خر میں دعا ہے اس ملک و ملت کے نصیب میں بھی کوئی ایسا رہنماء ہو جسکی ترجیح ملک و ملت ہو۔(آمین)