جہیز ایک ناسور ہے جو ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل چکا ہے اس لعنت نے لاکھوں بہنوں اور بیٹیوں کی زندگی کو جہنم بنا کر رکھ دیا ہے ان کی معصوم آنکھوں میں بسنے والے رنگین خواب چھین لئے ہیں،ان کی آرزوؤں، تمناؤں اور حسین زندگی کے سپنوں کا گلا گھونٹ دیا ہے انہیں ناامیدی، مایوسی اور اندھیروں کی ان گہری وادیوں میں دھکیل دیا ہے جہاں سے اجالے کا سفر ناممکن ہو چکا ہے۔
یہ ایک ایسی قبیح رسم ہے جس سے صرف غریب والدین زندہ درگور ہو رہے ہیں اور اس آس پر زندہ ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان اس لعنت سے پاک دو جوڑا کپڑوں میں ان کے لخت جگر کو قبول کرے،لیکن ہمارے معاشرے میں جو رسمیں رواج پا چکی ہیں اور وقت گزرنے کے ساتھ اپنے قدم مضبوطی سے جما لئے ہیں ان سے چھٹکارا پانا ناممکن ہے۔
در حقیقت جہیز خالص ہندوستانی رسم ہے اور ہندو معاشرے میں تلک کے نام سے مشہور ہے جسے آج ہمارے مسلم معاشرے نے اپنا لیا ہے،اس لعنت نے موجودہ دور میں ایسے پھن پھیلائے ہیں کہ غریب گھرانوں کے لڑکے بھی اپنے سے زیادہ مال وزر والے گھرانوں کا رخ کرنے لگے ہیں جس کی وجہ سے غریب گھروں میں پیدا ہونے والی لڑکیاں شادی سے محروم اپنی چار دیواری میں بیٹھی رہنے پر مجبور ہیں۔
جہیز ایک غلط اور فطرت کے خلاف رسم ہے آج اس رسم نے جو قبیح صورت اختیار کر لی ہے اس کی مثال نہیں ملتی،یہ بات درست ہے کہ کچھ سال قبل جن اشیائ کو قیمتی شمار کیا جاتا تھا وہ آج معمولی ضرویات زندگی بن چکی ہیں لیکن اس کا مطلب ہرگز نہیں کہ جہیز کے نام پر لڑکی کے والدین کو قرض کے سمندر میں ڈبو دیا جائے،اگر غور سے مطالعہ کیا جائے تو آج کا انسان ایک سائنسی دور میں گزر رہا ہے،اپنے بے پناہ علم اور غیر معمولی ترقی پر نازاں ہے وسائل نے اتنی آسانیا ں پیدا کر دی ہیں دنیا گلوبل ویلج بن گئی ہے پلک جھپکتے تمام کام حل ہو جاتے ہیں انسان کی ترقی مزید جاری ہے لیکن دوسری طرف اتنی ترقی کے باوجود انسان کسی اور مخلوق سے نہیں اپنے ہم نفس سے اتنا سہما اور خوفزدہ ہے۔
جس کی مثال نہیں ملتی ،بالخصوص ہمارے معاشرے میں غریبوں کی کوئی اہمیت نہیں وہ محض رینگتے غلیظ کیڑے مکوڑے ہیں اور ہر کوئی انہیں مسلتا ہوا آگے نکل جاتا ہے ،غریب کے گھر بیٹی پیدا ہو جائے تو ایک طرف خدا کی رحمت اور جب شادی کی عمر کو پہنچے تو زحمت بن جاتی ہے کیونکہ لڑکے والے جہیز جیسی لعنت کا تقاضا کرتے ہیں۔جہیز کی اصل حقیقت اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ لڑکی کے والدین جنہوں نے اسے پال پوس کر بڑا کیا اور گھر کی دہلیز سے رخصت ہوتے وقت اگر کچھ تحفے دیتے ہیں تو اسے جہیز نہیں بلکہ اپنی اولاد سے محبت و تعلق کی بنا پر فطری عمل ہے، لیکن موجودہ دور میں ان تحائف کی جو حالت بنا دی گئی ہے۔
وہ پہلے کبھی نہ تھی،ماں باپ کے ان تحفوں کو لڑکے والوں نے فرمائشی پروگرام بنا دیا ہے اور پورا نہ ہونے پر ظلم و زیادتی کی جاتی ہے جو کہ سراسر ناانصافی ہے یہی وجہ ہے کہ پہلے یہ سماجی رسم ہوا کرتی تھی آج جبر بن گیا ہے ، اس لعنت کی وجہ سے جو ظلم و ستم بہو بیٹیوں پر کئے جاتے ہیں وہ بیان نہیں کئے جاسکتے۔
Wedding
حکومتوں کو چاہئے جیسے رات گئے شادی بیاہ کہ شور وغل پرپابندی عائد کی ہے ویسے ہی ایک قانون بنایا جائے جس میں جہیز لینے دینے کو جرم قرار دیا جائے ،اور جو اس جرم کا ارتکاب کرے گا اسے جیل و بھاری جرمانے کئے جائیں تاکہ آئندہ کوئی ایسا گھناؤنا مطالبہ نہ کرے، اس کاروبار کو ختم کرنے کیلئے سخت کارورائی کی ضرورت ہے اور ریاستی اسلامی تنظیموں کا عمل دخل لازمی قرار دیا جائے۔
معاشرے میں جہیز جیسی لعنت کو ختم کرنے میں والدین کو بھی سختی سے عمل کرنا ہو گا وہ عہد کریں کہ نہ جہیز دیں گے اور نہ لیں گے ،لوگوں کو بھی بتایا جائے کہ جہیز مانگنا ہی جرم نہیں بلکہ اپنی حیثیت سے بڑھ کر تحائف کے نام پر جہیز دینا یا اپنی جائداد وغیرہ فروخت کر کے جہیز کے مطالبات پورے کرنا ایک اخلاقی جرم ہے،ہمارے معاشرے میں جہیز کے علاوہ بہت سی غیر اسلامی رسمیں پائی جاتی ہیں،جن کی وجہ سے سماج میں زبردست بے چینی بڑھ رہی ہے۔
امرا کیلئے تو کوئی بات نہیں لیکن غریبوں کے لئے بیٹیاں مصیبت ثابت ہو رہی ہیں اور روزانہ ہزاروں لڑکیاں اس ناسور کی بھینٹ چڑھ رہی ہیں، جہیز کی لین دین غیر اسلامی ہے، اس گھناؤنی غیر اسلامی رسم کو ختم کرنے میں نوجوان اہم رول ادا کر سکتے ہیں یہ اسی صورت ممکن ہے جب آج کی نسل جہیز کا لالچ اپنے دلوں سے نکال دیں اور معاشرے میں اپنے اس مخلصانہ عمل سے انقلاب برپا کریں۔