آج پاکستان کی ۶۸ویں سالگرہ تھی تو سوچا آج وطنِ عزیز کی سالگرہ ہے تو شاید آزادی سے متعلق کچھ نہ کچھ تو ٹی وی پر دکھا ئیں گے اور اسی شوق میں کب سے چینل بدل بدل کر دیکھ رہی تھی کہ شاید کہیں کوئی ملی نغمہ ہی سماعت کے پردوں سے ٹکرا جائے ۔ مگرافسوس کوئی ڈرامہ، پروگرام، ٹاک شو تو دور کی بات کو ئی ایک ملی نغمہ بھی سننے کو نہ ملا کیونکہ سب ٹی وی چینلز پر اگر کچھ آرہا تھا تو وہ انقلاب مارچ، تبدیلی مارچ ،دھرنے اور ریلیاں تھیں کون کررہا تھا؟ کیوں کر رہا تھا ؟ ان سب کا مقصد کیا تھا؟ کس خوش آیئند تبدیلی کے نام پر یہ سب ہورہا تھا؟ یا ایک سکرپٹڈ ڈرامہ تھا خیر یہ ایک لمبی بحث تھی بس میں اتناجا نتی تھی کہ کم سے کم آج کے دن یہ سب تماشا نہیں ہونا چاہیے تھا دل میں عجیب سی بے چینی تھی ایک طرف پاکستان کی سالگرہ کے دن پاکستان میں موجود نہ ہونے کا دکھ تھا تو دوسری طرف بچپن کی یادوں کا سیلاب ٹھاٹھیں مار رہا تھا دل بار بار سوال کر رہا تھا کہ کیوں آج پاکستان اتنا کھوکھلا ہوچکا ہے کہ آزادی کا دن بھی غلامی کی مثال پیش کر رہا ہے۔
بیٹھے بیٹھے بچپن کے وہ دن یاد آگئے جب والدِ محترم کے ساتھ جا کرچودہ اگست کے لیے خصوصی جھنڈیاں لے کر آتے تھے جن میں دھاگوں میں لگی ہوئی سبز ہلالی پرچم والی جھنڈیوں کے ساتھ ساتھ رنگ برنگی تکونی جھنڈیا ں بھی شامل ہوتی تھیں اور ساتھ میں بہت ساری پرچم والی کھلی جھنڈیاں بھی لاتے جنہیں ہم ایک دن پہلے چھت پر دھاگے باند ھ کر آٹے کی لئی سے چپکاتے تھے ساتھ دعا کرتے کہ کہیں با رش نہ ہوجائے کیونکہ اکثر چودہ اگست کے دن بارش ہوجایا کرتی تھی چودہ اگست سے ایک دن پہلے ہی پاکستان کا جھنڈا نکال کر دھو کر بہت پیار کے ساتھ استری کیا جاتا تھا اور پھر ہم بہن بھائی مل کر تبصرہ یہ کرتے کہ کس طرح ہمارا جھنڈا سب سے بڑا لگے، ہوا میں خوب لہرائے اور دور سے نظر بھی آئے، اسی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے ہوا کی سمت کا خیال رکھ کر اونچا کرکے بانس کے دو تین ڈنڈے جوڑ کر جھنڈا لہرایا جاتا اور اکثر جھنڈے کو مزید دلفریب بنانے اور آس پاس کے گھروں سے امتیاز بخشنے کے لیے اس کے ساتھ غبارے بھی لٹکا دیتے تھے سب سے آخر میں ہمارا کام نیچے جا کر سڑک کے کونے پر کھڑے ہو کر دیکھ کر تسلی کرنا ہوتا تھا کہ جھنڈا ٹھیک لگ گیا یا نہیں اور لگ کر کیسا لگ رہا ہے۔
یہ سب یا د آتے ہی دل میں اداسی کے گہرے بادل چھا گئے مگر ساتھ ہی یاد آیا کہ پاکستانی سفارت خانے میں شاید کسی تقریب کا اہتمام کیا گیا ہو معلومات لینے پر پتہ چلا کہ سعودی عرب کے دارلحکومت ریاض میں پاکستانی سفارت خانہ میں ایک پر رونق تقریب کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا جس میں پاکستانی سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ بہت سی پاکستانی نامی گرامی شخصیات بھی مدعو تھیں۔
جیسے ہی ہم سفا رت خا نے میں داخل ہوئے دل میں حب الوطنی کا جذبہ ٹھا ٹھیں مارنے لگا،پا کستانیوں کا ایک بہت بڑا ہجوم وہاں جمع تھااور حب الوطنی کے جذبے سے سرشار، جھوم جھوم کر سٹیج پر کھڑے سپیکر کے ساتھ ملی نغمے گا رہاتھا ہر طرف سبز ہلالی پرچم لہرا رہے تھے، ملی نغموں کی پر جوش آوازیں دل و روح کو سکون بخش رہی تھیں ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے ہم کسی اور ملک میں نہیں بلکہ اپنے وطن پاکستان میں کھڑے ہیں۔ کثیر تعداد میں پاکستانیوں کو دیکھ کر دل باغ باغ ہوگیا جو جھوم جھوم کر ملی نغموں سے لطف اندوز ہورہے تھے سٹیج پر گاہے بگاہے مختلف لوگ آکر اپنے اپنے الفاظ ، شاعری اور ملی نغموں کی صورت وطن سے محبت کا اظہار کر رہے تھے۔
Ceremony
پورا پنڈال رنگ برنگے قمقموں اور سبز ہلالی پرچموں سے سجایا گیا تھا ایک طرف سٹیج سجایا گیا تھا اور دوسری طرف ریاض میں موجود پاکستانی ریسٹورینٹس نے اپنے اپنے کھانے پینے کے سٹالز لگا رکھے تھے ایک سٹال پر کچھ عورتیں چہرے پر پینٹ سے پرچم بنا رہی تھیں جس کا ہم نے بھی فائید ہ اٹھا یا اور اپنی بیٹی کے چہرے پر پرچم پینٹ کروایا بہت سے سٹالز پر عورتیں پاکستانی ملبوسات ، کشیدہ کی ہوئی چادریں، قالین اور بہت سی ثقافتی چیزیں بیچ رہی تھیں ایک طرف تازہ حلوہ پوری بن رہی تھی جسے دیکھ کر ہم سے رہا نہ گیا اور حلوہ پوری کھا کر پاکستان کی یاد تازہ کی پنڈال کے ایک طرف نشستیں لگا کر بیٹھنے کا خصوصی اہتمام کیا گیا تھا، ہم بھی وہاں براجمان ہوگئے۔
تقریب سے خوب لطف اندوز ہوتے رہے مختلف گلوکاروں نے ملی نغمے گائے، شاعری اور اس کے بعد کوئز پروگرام ہوئے جس میں بہت سے انعامات تقسیم کیے گئے آخر میں سب نے مل کر جوش و خروش سے قومی ترانہ پڑھا اورپاکستان کے لیے دعا سے پروگرام کا اختتام ہوا۔
واپسی پر دل اپنے پیارے وطن کے لیے پریشان ضرور تھا مگر اس بات پر خوش بھی تھا کہ پردیس میں رہتے ہوئے ہم نے اپنے دیس کا مزہ لیا اور پاکستان سے دور رہ کر بھی ہمارے دل اپنے وطنِ عزیز کے لیے دھڑکتے ہیں اور ہمیشہ دعاگو رہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ پاکستان کے سیاست دانوں کو ہدایت دے اور ہمارے وطن کو امن و سلامتی کا گہوارہ بنائے۔