تحریک انصاف کا ”آزادی مارچ” عمران خان کی قیادت میں اور پاکستان عوامی تحریک کا ”انقلاب مارچ ” علامہ ڈاکٹر طاہرا لقادری کی قیادت میں اسلام پہنچ چکا ہے اور دونوں آزادی و انقلاب دونوں مارچ حکومتی اندازوں و اعدادوشمار سے کہیں زیادہ شرکاء کے ساتھ ”دھرنا ” پذیر ہوچکے ہیں اور عمران خان و طاہرالقادری کی جانب سے مطالبات بھی منظر عام پر آچکے ہیں جن میں وزیر اعظم نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف سے استعفیٰ کا مطالبہ یکسانیت کا حامل ہے جبکہ طاہرالقادری کا ایک بہت بڑا مطالبہ مرکزی و صوبائی حکومتوں کی تحلیل اور قومی حکومت کی تشکیل ہے جس پر میڈیا پر دانشور حضرات اپنی اپنی رائے پیش کررہے ہیں۔
جبکہ حکومت طاہرالقادری کے خلاف طاقت کے استعمال کا موقع تلاش کرنے کے ساتھ عمران خان سے ”ڈیل ” کے ذریعے گلو خلاصی کی راہ نکالنے کیلئے مستعد و مصروف ہے مگر تحریک انصاف کے آزادی مارچ میں شیخ رشید کی شمولیت کے بعد عمران خان کے رویئے میں لچک اور حکومت و تحریک انصاف کے درمیان کسی چھوٹی ڈیل یا سمجھوتے کے تمام امکانات معدوم ہیں البتہ ژری ڈیل کے تحت شاید معاملات نمٹنے کی کوئی سبیل نکل آئے اور بڑی ڈیل کیلئے حکومت کو وزیراعظم نواز شریف کے نہیں تو کم از کم شہباز شریف کے استعفیٰ کے مطالبے کو یقینا تسلیم کرنا ہی پڑے گا کیونکہ لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کی ایف آئی آر وزیراعظم نواز شریف ‘ وزیراعلیٰ شہباز شریف ‘ سابق وزیرقانون پنجاب رانا ثناء اللہ اور دیگر کے خلاف اندراج کے عدالتی حکم کے بعد اب آئینی و قانونی ماہرین کا اصرار ہے۔
وزیراعظم اور وزیراعلیٰ پنجاب آئین کے ارٹیکل 62 اور 63 کی شق کے مطابق صادق وامین نہ رہنے اور جرم میں ملوث قرار دیئے جانے کے باعث عدالتی فیصلے اور اس کیس سے باعزت بری ہوجانے تک حق حکمرانی سے محروم ہوچکے ہیں لہٰذا ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کسی بھی طور غیر آئینی یا غیر جمہوری عمل نہیں ہے جس کے بعد وزیراعظم سے استعفیٰ کے مطالبے کو غیر آئینی و غیر جمہوری عمل قرار دینے والے اپنی بات پر اصرار کیلئے بے شرمی و ہٹ دھرمی کا نقاب اوڑھنے پر مجبورہیں۔
چند سیاسی دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے سانحہ ماڈل ٹاؤن کے حوالے سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ سات روز تک دبائے رکھنے اور منظر عام پر نہ لانے کے جرم کی رپورٹ میڈیا پر آنے کے بعد شہباز شریف کو وعدے کے مطابق مستعفی ہوکر سیاسی ساکھ بچانے کا صالح مشورہ دینے کی بجائے مرکز و پنجاب حکومت کے ترجمان کا کردار ادا کرنے والے وزیرریلوے خواجہ سعد رفیق ‘ سابق وزیر قانون پنجاب رانا ثناء اللہ اورمسلم لیگ (ن) کے سیکریٹری اطلاعات کا کردار ادا کرنے والے پاکستان کے وفاقی وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید کی جانب سے عدالتی کمیشن کی رپورٹ اور لاہور سیشن کورٹ کے حوالے سے گمراہ کن پراپیگنڈہ شہباز شریف کیلئے مزید مسائل و مصائب کا شاخسانہ بن جائے گا اور ان کے یہ نادان دوست ان کیلئے دشمنوں سے زیادہ خطرناک ثابت ہوں گے۔
طاہرالقادری کی جانب سے انقلاب مارچ کے شرکاء کو ہر حال میں پر امن رہنے اور ہر قسم کے تشدد سے گریز کی ہدایت کے ساتھ اپنے دھرنے کو موجودہ مقام پر اہداف کے حصول تک براجمان رکھنے کے فیصلے کے برخلاف عمران خان کی جانب سے اتوار کا دن فائنل قرار دیئے جانے اور ریڈ ایریا سے گزرکر پارلیمنٹ ہاؤس تک جانے کااعلان ان کی اس بات کو سچ ثابت کررہا ہے کہ فاسٹ بالر میں صبرو تحمل نہیں ہوتا اور وہ ہر میچ کا نتیجہ جلد سے جلد حاصل کرنا چاہتا ہے اور اگر ان کی جلد بازی سے نمٹنے کیلئے حکومت نے روایتی پالیسی اپنانے کی کوشش کی تو خون خرابے کی ذمہ داری وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان دونوں ہی کے سر جائے۔
جس کے بعد آمریت آئے یا جمہوریت سیاسی میدان سے غیر آبرو مندانہ طریقے سے دونوں کی رخصتی یقینی ہے ۔رہی بات قادری صاحب تو وہ مہمان اداکار ہے قومی سیاست کی فلم میں گلیمر کا رنگ بھر کر اسے کامیاب بنانے کیلئے تشریف لائے ہیں اور اسلام آباد مارچ کے سین کے بعد ان کا کردار ختم ہونے والا ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ کردار کے خاتمے کے بعد ان کا واپس کینیڈا لوٹنا ان کے مقدر میں لکھا ہے یا …؟
Democracy
جمہوریت کو لاحق خطرات کے حوالے سے محب وطنوں کے خدشات و جذبات یقینا قابل توصیف ہیں مگر بے وجہ بد گمان ہونے کی ضرورت نہیں پاکستان پر رب کا خاص کرم ہے جب بھی پاکستان مصیبت میں ہوتا ہے اللہ کسی نہ کسی کو مسیحا بنادیتا ہے گو بعد میں مسیحا بہت بدنام ہوتا ہے مگر وقت ابتلا کو ٹالنے کا باعث وہی” بدنام”ہی بنتا ہے جیسے آمر وقت کہلانے والے ایوب خان کا ابتدائی عمل پاکستان کو محفوظ بنانے اور بچانے کیلئے تھا ۔ جنرل ضیا ء الحق کا مارشل لاء بھٹو کیخلاف عدالتی ردعمل کا شاخسانہ تھا اور مشرف کی آمریت فوج کے ادارے کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کیلئے فوج کا مشترکہ اقدام تھا تینوں بار فوج نے ملک بچانے کیلئے اپنا کردار ادا کیا مگر اب کی بار حالات اس بات کی نشاندہی کررہے ہیں کہ آمرانہ ادوار سے میاں صاحب اور مسلم لیگ نے بلاشک کچھ نہ سیکھا ہو یا تحریک انصاف نے اب تک آمریت کا مزہ نہ چکھا ہو مگر دیگر سیاسی جماعتیں اور قیادتیں بہت کچھ سیکھ چکی ہیں اور جانتی ہیں کہ ایسے حالات میں افہام و تفہیم اور اتحاد و اتفاق ہی ملک کو غیر آئینی ردعمل سے محفوظ بناسکتا ہے۔
اسلئے جماعت اسلامی کے نو منتخب و معتدل مزاج امیر سراج الحق نے اپنا ذمہ دارانہ کردا ر ادا کرتے ہوئے حکومت و تحریک انصاف کے درمیان مصالحانہ کردار کی ادائیگی کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کی جانب سے بھی کسی بھی قسم کی جانبداری کی بجائے ثالثی کی کوششیں دکھائی دے رہی ہیں اور پیپلز پارٹی بھی جمہوریت کیخلاف کسی بھی قسم کی سازش کیخلاف سیسہ پلائی دیوار کردار ادا کرنے کا عزم کرتی چلی آرہی ہے جس کے بعد سراج الحق ‘ الطاف حسین اور آصف علی زرداری پر مشتمل ٹرائیکا اس سیاسی بحران کا آبرو مندانہ حل نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہے۔
پاکستان میں جاری سیاسی انتشار ‘ تحریک انصاف وعوامی تحریک کے احتجاج اور حکومتی طرز عمل کے پیش نظر بعض تجزیہ نگار اس رائے کا اظہار کررہے ہیں کہ جماعت اسلامی ‘ متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی اس موقع پر اہم کردار ادا کرتے ہوئے” ان ہاؤس تبدیلی” کا فارمولہ پیش کریں گی جس کے بعد اسمبلیاں بھی نہیں ٹوٹیں گی ‘ جمہوری عمل بھی ڈی ریل نہیں ہوگا او انقلاب مارچ و آزادی مارچ کے شرکاء بھی مطمئن ہوکر گھر چلے جائیں گے ۔ اس فارمولے کے تحت وزیراعظم نواز شریف مستعفی ہوجائیں گے اور جبکہ پارلیمنٹ بر قرار رہے گی اورمقتدر قوتوں کی آشیر باد سے نیا وزیراعظم منتخب کرکے موجودہ پارلیمنٹ کو ہی قومی حکومت کی طرز پر چلاتے ہوئے طاہر القادری کے انقلاب اور عمران خان کی تبدیلی سے ملک کو بچایا جائے گا جبکہ نئے وزیراعظم کیلئے ایک سینئر تجزیہ نگار کی چڑیا نے قرعہ فال اعتزازاحسن کے نام نکالا ہے۔
جن کے متعلق تجزیہ نگار کی رائے ہے کہ وہ فوج کیلئے قابل اعتماد ہیں کیونکہ عدلیہ بحالی تحریک کے لانگ مارچ کے وقت اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اعتزاز احسن کے موبائل پر ہی فون کرکے انہیں عدلیہ بحال کرنے کیلئے صدر و وزیراعظم کی رضامندی سے آگاہ کیا تھا جبکہ اعتزازاحسن کے نام پر متحدہ کو اعتراض ہو نہیں ہوسکتا اور پیپلز پارٹی کی سیاسی بصیرت ہی اعتزازاحسن کیلئے فضا سازگار بنارہی ہے ‘ جماعت اسلامی جمہوری نظام بچانے کیلئے بہت کچھ قبول کرلینے کی عادی ہے عوامی نیشنل پارٹی اور فنکشنل لیگ مخالفت کی پوزیشن میں نہیں ہیں جبکہ مسلم لیگ (ن) اپنی ہی اقدامات کے باعث اس مقام پر آن کھڑی ہوئی ہے جہاں اسے سیاسی و جمہوری نظام بچانے کیلئے اب ہر شرط کو ماننا ہوگا وگرنہ اس بار بھی جمہوریت کی رخصتی اور مارشل لاء کے نفاذ میں مسلم لیگ کا کردار ہی سب سے زیادہ مستحکم مانا جائے گا۔
ساری صورتحال کے تجزیئے کے بعد یہ نتیجہ نکالنا یقینا مشکل نہیں ہے کہ آزادی مارچ اور انقلاب مارچ کے بعدآنے والے انقلاب سے ایوان اقتدار میں چہروں کی تبدیلی تو ضرور آئے گی مگر عوام کی تقدیر کی طور نہیں بدل پائے گی جبکہ انقلاب مارچ کے ذریعے سیاسی فلم میں مہمان اداکار کا کردار ادا کرنے والے طاہرالقادری نے جتنے فوائد حاصل کرنے تھے وہ حاصل کرچکے اب وہ نقصان کے دائرے میں داخل ہوچکے ہیں اور آزادی مارچ کے ذریعے عوام کو موبیلائز کرکے نواز شریف کو استعفیٰ پر مجبور کرنے والے عمران خان بھی نہ تو زیراعظم بن پائیں گے اور نہ ہی نظام کی تبدیلی کی ان کی خواہش پوری ہوگی اس سارے سیاسی منظر نامے میں مسلم لیگ (ق)’ تحریک انصاف ‘عوامی نیشنل پارٹی ‘ پاکستان عوامی تحریک ‘ فنکشنل لیگ اور نیشنل پارٹی کسی بھی خاص فائدے سے محروم رہیں گی۔
البتہ سیاسی بالغ نظری اور خالصتاً جمہوری رویئے کے ساتھ افہام و تفہیم کی پالیسی پر گامزن آصف علی زرداری کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی’ ایم کیو ایم اور جماعت اسلامی کی مدد سے اس سیاسی بحران سے نہ صرف ملک و قوم کو نکالنے میں اہم کردار ادا کرے گی بلکہ تمام ثمرات کی حقدار بھی ٹہرے گی۔
Politics
موجودہ ملکی حالات کے حوالے سے یہ ہمارے دانشور دوست کی چڑیا کی خبر اور آنے والے حالات کی پیشنگوئی ہے جبکہ مدیر اخبار کے مراسلہ نگار کی رائے سے متفق ہونے کی طرح ہمارا بھی چڑیا کی اس خبر اور دانشوروں کے تجزیئے سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے البتہ بحیثیت پاکستانی اور سیاسی تجزیہ نگار و محب وطن پاکستانی ہماری یہ دعا ضرور ہے کہ جو بھی ہو اس طرح سے ہو کہ ملک و قوم کا مفاد بھی محفوظ رہے اور سیاسی و جمہوری نظام کو بھی نقصان نہ پہنچے اور قوم مزید کسی بھی قسم کے انتشار ‘ تعصب ‘ لسانیت یا نفرتوں کی جانب سفر سے بھی محفوظ رہے اور رب رحمن پاکستان ‘ جمہوری نظام اور پاکستانی قوم کے اتحاد و اتفاق کو برقرار رکھتے ہوئے مشکل کی اس گھڑی سے پاکستان کو خوش اسلوبی سے گزار کر وطن عزیز استحکام ‘ ترقی ‘ امن اور پائیداری کی کہکشاں تک پہنچ جائے۔