مفادات اور اقتدار کی جنگ

Muslim Ummah

Muslim Ummah

اس وقت امت مسلمہ کو نہ صرف اندرونی طور پر بلکہ بیرونی طور پر بھی شدید خطرات کا سامنا ہے ۔ اندرونی خطرات زیادہ خطرناک اور افسوسناک ہیں۔ اس لئے ایک تو تمام ہی اسلامی فرقے ایک دوسرے کو نہ صرف کافر قرار دیتے ہیں بلکہ قتل تک کے فتوے لگانے سے گریز نہیں کرتے ۔ جبکہ مغربی دنیا تمام فرقوں کو مسلمان سمجھتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپسی اختلافات کو خوب ہوا دینے کی کوشش کرتے ہیں مغربی قوتیں اور طاقتیں ابھی بھی اپنے ازلی فارمولے تقسیم کر و اور حکومت کرو کو اپنائے ہوئے ہے۔

ان کو اس بات کا بخوبی علم ہے کہ مسلمانوں کے وہ کون سے حساس اور اہم اختلافات ہیں جن کو اگر ہوا دی جائے تو نہ صرف امن وامان کی صورتحال تباہ ہوسکتی ہے بلکہ ساتھ ہی وہ مفادات کی جنگ کو بھی جیت سکتے ہیں۔
ایران اور عرب ممالک کی ایک تایخی رقابت ہے جو کافی عرصہ سے چلی آرہی ہے یہی وجہ تھی کہ سعودی عرب اور کویت نے ایران اور عراق کی طویل جنگ میںعراق کا ساتھ دیا یہ اور بات ہے کہ پھر عراق کو بھی اس کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو آج تک اس کے ساتھ سلوک کیا جارہا ہے افسوسناک اور انتہائی تشویشناک ہے۔

دوسرا بڑا ہتھیار جو ان مغربی ممالک کے پاس ہے وہ شیعہ سنی اختلافات کا ہے اس سلسلے میں بھی سعودی عرب شیعوں کو برداشت نہیں کر رہا اور ان سے سخت الرجک ہے پھر کردوں کا مسئلہ ہے جو وقتافوقتا سر اٹھاتا رہتا ہے اب یہ وہ ایسے اختلافات یا اسلامی ممالک کے بنیادی مسائل ہیں جو کسی آتش فشان سے کم نہیں اور اسرائیل بخوبی اس بات کو جانتا اور سمجھتا ہے
یہی وجہ ہے کہ ان اختلافات کو ہوا دینے میں اس کا بنیادی کردار ہے جو وہ امریکہ اور سعودی عرب کی مدد سے کامیابی سے نہ صرف نبھا رہا ہے بلکہ اس مکروہ فعل کو سر انجام دے رہا ہے جس طرح سے انسانیت کی تزلیل کی جارہی ہے اس کی مثالین تاریخ میں ہی سننے اور دیکھنے کو ملا کرتی تھیں مگر اب تو یہی تاریخ کھلم کھلا دہرائی جارہی ہے۔

یہ ایک حقیقت اور افسوسناک بات ہے کہ امریکہ اور سعودی عرب کی آپس میں گہری اور دلی وابستگی ہے ۔ مسلمانوں کے دل اگرچہ مکہ اور مدینہ کی وجہ سے سعودی عرب کے ساتھ دھڑکتے ہیں مگر قابل افسوس بات یہ ہے کہ بظاہر تو مکہ اور مدینہ کے میناروں سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کی آوازیں گونجتی ہیں لیکن امر واقع یہ ہے کہ ان میناروں میں صرف لاوڈ اسپیکر لگے ہوئے ہیں جبکہ مائیکروفون واشنگٹن میں ہیں اور ان مائیکروفون پر بولنے والا اسرائیل ہے ۔ یہ ایک ایسی تلخ حقیقت ہے جسے امت مسلمہ تسلیم کرنے کا تیار نہیں جبکہ مسلم حکمران طوطے کی طرح آنکھیں بند کئے ہوئے ہیں۔

America

America

ہر صاحب شعور انسان اگر زرا سا بھی علم رکھتا ہو تو وہ یہ دوٹوک بات خوب سمجھ سکتا ہے کہ سعودی عرب مکمل طور پر امریکی اقتدار کا حصہ بن چکا ہے اور امریکہ کی مکمل اور گہر ی وابستگی اسرائیل کے ساتھ وابستہ ہے۔
مسلم ممالک اور ان کے معصوم عوام پر مسلسل وارد ہونے والے اور ڈھائے جانے والے مظالم مصائب اور تکالیف جنگ و جدل پر نہ صرف سعودی عرب کا مثبت کردار زیرو اشاریہ زیرو ہے بلکہ سعودی عرب ہمیشہ فریق مخالف کے ساتھ کھڑا نظر آتا ہے۔

خواہ داعیش کی ظالمانہ کاروائیاں ہوں جن میں نبیوں اور بزرگ ہستیوں کے مزارات کو انتہائی بے دردی سے شہید کر نے کی بات ہو یا معصوم اور بے گنا ہ مسلمانوں یا معصوم عیسائی بچوں کا وحیشانہ قتل عام اور ان کی عزتوں کو لوٹنا ہو ۔۔ یا پھر طالبان کی ظالمانہ کاروائیاں اور انسانیت سوز مظالم ہوں بشعمول سعودی عرب کسی اسلامی ملک نے ایسا کھل کر احتجاج یا مذمت نہیں کی کیا۔

ان تمام حقائق سے پردہ اٹھانے کے بعد بھی امت مسلمہ سعودی عرب کو اپنا مائی باپ سمجھتی رہے گی ۔۔؟اور ان کی طرف ایک امید اور آس لگائے بیٹھی رہے گی کہ شاید سعودی عرب ان کا ساتھ دینے کو تیار ہوجائے ۔۔ مگر افسوس کے مسلم ملک ہوتے ہوئے بھی ایسا کبھی ممکن نہیں ہوگا ۔۔۔اس لئے کہ اب جنگ دین اور ایمان کی نہیں بلکہ دولت اور مفادات کی لڑی جاتی ہے اقتدار کو طول دینے کے لئے ظلم بربریت اور انسانیت سو ز مظالم کوجائز اور درست قرار دیا جاتا ہے جو ان حکمرانوں کی بے حسی بے رحمی نیز اسلام اور مسلم دشمنی پر دلالت کرتی ہے۔

Mary Samar

Mary Samar

تحریر:مریم ثمر