مسلم لیگ (ن) کی حکومت کے خلاف اسلام آباد میں پڑائو ڈالنے کے بعد مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت میں پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر علامہ طاہر القادری نے وزیراعظم میاں نواز شریف اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف کے استعفیٰ اور قومی حکومت کے قیام کیلئے اڑتالیس گھنٹے کی ڈیڈ لائن دے دی ہے جبکہ پاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کے اعلان کے ساتھ ہی وزیراعظم نواز شریف کے استعفیٰ کیلئے مزید دو دن کی مہلت دیدی ہے۔
یہ سطور لکھے جانے تک علامہ طاہر القادری کی طرف سے دی گئی ڈیڈ لائن کے ختم ہونے میں صرف چھ گھنٹے باقی رہ گئے ہیں اور ممکن ہے کہ علامہ صاحب اس ڈیڈ لائن میں مزید چوبیس گھنٹے یا کچھ وقت کا اضافہ کر دیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت نے تحریک انصاف اور عوامی تحریک سے مذاکرات کا فیصلہ کرلیا ہے ، اس کیلئے باقاعدہ کمیٹیاں بھی بنا دی گئی ہیں جو عمران خان اور طاہر القادری کو مذاکرات کی میز پر لانے کی کوشش کرینگی۔ تحریک انصاف اور عوامی تحریک کو اسلام آباد میں دھرنے کی اجازت دیتے وقت شاید حکومت اس خوش فہمی میں مبتلا تھی کہ دونوں جماعتوں کے قائدین اور کارکن چند دن کا شوق پورا کرکے تھک ہار کر واپس چلے جائیں گے لیکن اب دونوں جماعتوں کی طرف سے باقاعدہ ڈیڈ لائن دینے اور ریڈ لائن عبور کرنے کی دھمکی کے بعد سے حکومت بھی حرکت میں آ گئی ہے اور ریڈ زون سمیت دارالحکومت کی سکیورٹی مزید سخت کر دی ہے۔
اس میں شبہ نہیں کہ حکومت مخالف دونوں جماعتیں اپنے دعوئوں کے مطابق شرکاء کو اکٹھا کرنے میں ناکام رہیں لیکن عمران خان اور طاہر القادری کی طرف سے آخری حد تک جانے کی دھمکی کے بعد اب حکومت کی حلیف جماعتیں بھی یہ کہنے پر مجبور ہو گئی ہیں کہ حکومت نے عوامی تحریک اور تحریک انصاف کو اسلام آباد میں ڈیرہ ڈالنے کی اجازت دے کر شاید بہت بڑی غلطی کر دی ہے اور اگر خدانخواستہ دونوں جماعتوں یا کسی ایک جماعت نے ریڈزون عبور کرکے پارلیمنٹ ہائوس تک پہنچنے کی کوشش کی تو اس سے خون خرابہ ہوگا اور پھر کوئی طاقت مارشل لاء کا راستہ نہیں روک سکے گی۔ جہاں تک مارشل لاء کا سوال ہے تو فی الحال ایسے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے اور نہ ہی ملک کسی مارشل لاء کا متحمل ہو سکتا ہے۔ اگر ایسی غلطی سرزد ہو گئی تو پھر پاکستان بھی مشرق وسطیٰ کے اُن ممالک کی صف میں کھڑا ہو جائے گا جہاں فوج اور عوام آمنے سامنے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن) اور عوامی نیشنل پارٹی بھی مارشل لاء کی سخت مخالف ہیں اور ایسی صورتحال میں وہ بھی میدان میں آ جائیں گی جس سے ملک میں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے جو کہ پاکستان دشمن عالمی طاقتوں کا اصل ایجنڈا ہے ،البتہ موجودہ نازک صورتحال میں قومی حکومت کے امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا اور اس کیلئے اگلے دو سے تین دن انتہائی اہم گردانے جا رہے ہیں۔ انقلاب مارچ اور آزادی مارچ شروع ہونے سے پہلے قوم سے خطاب اور پارلیمنٹ ہائوس کے سامنے آزادی کی تقریبات کے دوران وزیراعظم میاں نواز شریف اُْداس اور پریشان نظر آئے اور یہ پریشانی اُن کے چہرے پر عیاں تھی، مگر تیرہ اور چودہ اگست کی درمیانی رات وزیراعظم اور آرمی چیف کے درمیان ہونیوالی ملاقات کے بعد اگلے دن کوئٹہ ریذیڈنسی میں اپنے خطاب کے دوران وزیراعظم نواز شریف کافی حد تک مطمئن نظر آئے اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ شاید انہیں کہیں سے باقاعدہ آکسیجن مل چکی ہے۔
Freedom March, Revolution March
اس ملاقات سے پہلے حکومت نے انقلاب مارچ اور آزادی مارچ کی اجازت نہ دینے کا حتمی فیصلہ کر لیا تھا اور وزیراعظم نواز شریف نے قوم سے اپنے خطاب میں بھی اس طرف واضح اشارہ دے دیا تھا، لیکن اس ملاقات کے فوری بعد ہی حکومت نے دونوں جماعتوں کو اسلام آباد میں پڑائو ڈالنے کی اجازت دی اور اب دونوں جماعتوں نے اسلام آباد میں ڈیرے ڈالتے ہی ریڈ لائن کو عبور کرنے کی طرف واضح اشارہ دے دیا ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ اس مارچ کے شروع کرنے سے قبل ڈاکٹر طاہر القادری پورے جمہوری نظام کو ہی لپیٹنے کے حامی تھے، جبکہ عمران خان مڈٹرم انتخابات چاہتے تھے۔
اب دونوں جماعتیں جو بظاہر مارشل لاء کی مخالفت کر رہی ہیں لیکن قومی حکومت کے قیام پر متفق نظر آتی ہیں۔ بعض حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ عمران خان نے حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک کا اعلان کرکے اپنی سیاسی خودکشی کو خود ہی دعوت دیدی ہے، مگر چودھری شجاعت حسین کی طرف سے قومی حکومت کے قیام سے متعلق بیان سے یہ تاثر ملنا شروع ہوگیا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے اور پسِ پردہ قومی حکومت کے قیام کیلئے لابنگ شروع ہو چکی ہے۔چودھری صاحب کے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مضبوط تعلقات ہیں اور اُن کے بارے میں مشہور ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی سوچ کے مطابق سیاست کرنے کے ماہر ہیں۔ انہوں نے ہمیشہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ چلنے کو ترجیح دی ہے، یہی وجہ ہے کہ اُن کے اس بیان کو اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے کہ شاید اُن کو کسی طاقت نے یہ بیان دینے پر مجبور کیا ہے، تاکہ عوام کے سامنے قومی حکومت کے قیام کا مطالبہ بھی سامنے آ جائے اور درپردہ یہ کھیل مکمل کرکے اچانک عوام کے سامنے لایا جائے۔
کچھ ایسا ہی دعویٰ احمد رضا قصوری بھی کر چکے ہیں کہ ملک میں عبوری حکومت کی تیاری کر لی گئی ہے اور 19اگست کو نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائے گی جس کے بعد بے داغ سیاست دانوں پر مشتمل عبوری حکومت تین ماہ میں انتخابات کرائے گی۔ احمد رضا قصوری سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے وکیل ہیں اور حکومتی حلقوں کے مطابق موجودہ سیاسی بحران جنرل (ر) پرویز مشرف کا پیدا کردہ ہے اور اُنہیں بچانے کی ایک گیم کا حصہ ہے۔ حکومت کے زیرِ عتاب ہونے کے باوجود پرویز مشرف کی جماعت نے کھل کر طاہر القادری اور عمران خان کی احتجاجی تحریکوں کی حمایت کر دی ہے اور خود پرویز مشرف بھی حکومت سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ اگلے دو روز انتہائی اہم ہیں جن میں ملک کے اندر قومی حکومت بننے یا نہ بننے بارے اصل حقیقت واضح ہو جائے گی۔