اولن باتور (جیوڈیسک) یہ ریس ہر سال اگست میں منگولیا کے ایک ہزار کلو میٹر پر پھیلے ویران اور بے آب و گیا علاقے میں ہوتی ہے، جس میں دنیا بھر سے 30 گھڑ سوار حصہ لیتے ہیں۔ تا ہم صرف آدھے ہی اس ریس کو مکمل کرپاتے ہیں۔
اس خطرناک ریس میں کئی شرکا کو ہیلی کاپٹر کے ذریعے اٹھانا پڑا جب کہ کئی دیگر کو ہسپتال پہنچانا پڑا۔ جب کہ سام جونز بہادر ثابت ہوئی اور وہ بغیر کوئی چوٹ یا تکلیف کے جیت گئی۔
جونز نے بتایا ہے کہ ریس میری زندگی کا ایک انتہائی ڈراونا تجربہ تھا، اور مجھے امید نہ تھی کہ میں اس میں کامیابی حاصل کر لوں گی۔ برطانوی میڈیا کے مطابق آسٹریلوی فاتح نے کہا کہ میری اولین ترجیح زخمی ہوئے بغیر اس ریس کو مکمل کرکے گھر واپس آنا تھا، اور میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ہوں۔
اس ریس میں ہر سال صرف تیس فیصد لوگ ہی فنش لائن عبور کرتے ہیں ، لیکن چالیس سالہ سام جونز نے بتایا کہ اس مرتبہ ساٹھ فیصد لوگوں نے اس لائن کو کراس کر لیا ہے۔