طاقت کے سہارے جمہوری حکومت کا تختہ پلٹ کر اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کے بعد عدلیہ کے سہارے جمہوری وزیراعظم کو تخت دار پر لٹکانے والے مرحوم جنرل ضیاء الحق نے محض پیپلزپارٹی حکومت کو جبری برطرف کرکے بھٹو کا عدالتی قتل ہی نہیں کرایا بلکہ عدلیہ اورکو ججز کو بھی اپنے مفادات کیلئے استعمال کرکے عدالت کے ذریعے مقتدر طبقات کے مفادات کے حصول کی وہ شمع بھی جلائی جس کی روشنی میں آج ان کے لے پالک وسیاسی جانشین اپنی سیاسی دکان بڑی آسانی سے چلاتے ہوئے جمہوریت کے نام پر مخالفین کو کچلنے اور کرپشن کو چھپانے میں کامیاب ہیں جبکہ اپنی جبر کی حکومت کو دوام بخشنے ‘جرائم کو چھپانے اور عوام کو اپنی مرضی و منشاء کے مطابق چلانے کیلئے طاقت اور نوٹوں کی قوت کے سہارے مذہبی بازیگروں کے ذریعے کمیونسٹ پارٹی کو لادین قرار دلاکر جبرو ظلم کے ذریعے اس کا خاتمہ کردیا۔
حالانکہ کمیونسٹ پارٹی کا لادینیت سے دور کا واسطہ بھی نہیں تھا اور اس کا منشورکسی طور پاکستان کے آزاد وخودمختار تشخص یا اسلام و نبی کریم ۖ کی تعلیمات سے کہیں بھی متصادم نہیں تھا اگر کمیونسٹ پارٹی کے پیغام کو ایک جملے میں سمویا جائے تو وہ جملہ یہ ہوسکتا ہے کہ ” رشتوں کا تقدس اور تمام مذہبی تعلیمات کا احترام کرتے ہوئے دنیا کے تمام وسائل پر اولاد انسانی کے یکساں حقوق ہیں اسلئے اقتدارو اختیار کی بناید پر کسی کو بھی اللہ کی دی ہوئی نعمتوں اور وسائل پر قبضے کا کوئی حق نہیں ہے اور دنیا کے ہر انسان کو ان وسائل میں سے اپنی قابلیت ‘ صلاحیت اور محنت کے مطابق حصہ ملنا چاہئے جبکہ معذور افردا اور محروم طبقات کی کفالت و دیکھ بھال معاشرے کے دیگرطبقات کی ذمہ داری ہے۔
جبکہ کمیونسٹ پارٹی کے اس نظریئے و جدوجہد نے پاکستان میں موجود تمام قومیتوں ‘ برادریوں ‘ مذہب و مسلک کے ماننے والے تعلیم یافتہ اور دانشور طبقے کو متاثر کرکے ”پاکستان کمیونسٹ پارٹی ” کے پلیٹ فارم پر یکجا و متحد کردیا تھا اور پاکستان میں حقیقی آزادی کے قیام و عوامی مفادات و خوشحالی کے حوالے سے پیپلز پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی کے نظریات میں موجود مطابقت پیپلزپارٹی و کمیونسٹ پارٹی کے درمیان اتحاد و اشتراک کی وجہ بننے جارہی تھی اس ملک وسائل پر قابض جاگیردار طبقات کی موت بن جاتی جو ملک ‘ خان ‘ چوہدری ‘ سردار’نواب اور وڈیروں کے ساتھ مذہب کے ٹھیکیداروں کی شکل میں پاکستان کی زمین سے لیکر دیگر وسائل اورلوگوں کے مقدر کے فیصلوں تک پر قابض و قادر تھے اسی لئے قومی وسائل اور عوامی تقدیر پر قادرو قابض طبقات کا اتحاد بھٹو کی عوامی حکومت کے خاتمے اور ان کی خواہش بھٹو کے قتل کا سبب بنی جبکہ ان کے مستقبل کو محفوظ بنانے کیلئے جنرل ضیاء الحق نے کمیونسٹ پارٹی کا بھی صفایا کردیا۔
جنرل ضیاء الحق کی آمرانہ حکومت کو بعد ازاں ضیائی آمریت کو جنم دینے اور مضبوط کرنے والوں کو انگریز سرکار کی مانند تحریک آزادی کے غداروں کو انعامات و جاگیریں نوازنے کی روایت کے مطابق وزارتیں اور عہدے دیکر جمہوری و عوامی حکومت کانام دے دیا گیا جس کے بعد جمہوریت کے نام پر لوٹ مار اور ملک بچانے کے نام پر آمرانہ اقدار کا کھیل آج بھی جاری ہے اور عدلیہ کیلئے دی گئی عوامی قربانیوں کے باوجود انصاف کے ذمہ داروں کے کرداروں میں بھٹو کو پھانسی دینے والوں کے کردار سے بہت زیادہ اختلاف نہیں آیا ہے جس کی وجہ سے آج پاکستان میں پھر وہی تاریخ دہرائی جارہی ہے۔
جہاں تعلیم یافتہ’ تہذیب یافتہ’ باشعور’ حوصلہ مند’ منافقت سے پاک ‘ حق وسچ کہنے اور اپنے سچ پر قائم رہنے والے ‘انسانیت کی عظمت و احترام ‘ انصاف ‘ مساوات ‘ عدل اور احسان کے ساتھ ترقی و خوشحالی پاکستان کیلئے جدوجہد کرنے والے کامریڈوں کی کمیونسٹ پارٹی سے جاگیردارانہ نظام کو لاحق خطرات سے محفوظ بنانے کیلئے اس کیخلاف پوری ریاستی قوت روبہ عمل تھی جسے نہ صرف تمام سیاسی و جمہوری قوتوں کا تھا بلکہ مذہبی قیادتیں بھی جاگیرادارنہ اور مذہبی ٹھیکیداری نظام کے تحفظ کیلئے کمیونسٹ پارٹی پر لادینیت کے فتوے لگاکر عوام میں اس کیخلاف نفرت و اشتعال پھیلانے کیلئے تمام ہتھکنڈے آزما رہی تھی آج پھر ملک اسی صورتحال سے دوچار مگر اس بارجاگیردارانہ نظام سیاست ‘ خاندانی نظام حکومت اور مذہبی بازیگری کے تحفظ کی جنگ ہے۔
جسے تحفظ جمہوریت و پارلیمان کا نام دیا جارہا ہے اور تعلیم یافتہ و دانشور طبقات اور پرعزم و حوصلہ مند ہونے کے ساتھ مفاد و منافقت سے پاک نوجوان طبقے کو مستقبل کیلئے خطرہ جان کر سیاست کے بوڑھے کرگس یکجا ہوچکے ہیں اور اس ملک کے نوجوانوں کے ساتھ وہی سلوک کرنا چاہتے ہیں جو ماضی میں کمیونسٹ پارٹی کے ساتھ کیا جاچکا ہے۔
Zulfiqar Ali Bhutto
ذوالفقار علی بھٹو کی قیادت میں قومی و عوامی تحفظ کیلئے کام کرنے والی پیپلز پارٹی حقیقی معنوں میں ایک عوامی جماعت تھی جس میں نیچے سے اوپر تک تعلیم یافتہ اور عام افراد اپنی ذمہ داریاں و فرائض انجام دے رہے تھے یہی وجہ تھی کہ پیپلز پارٹی اور کمیونسٹ پارٹی اتحادو اشتراک کی جانب بڑھ رہی تھیں اور اگر ایسا ہوجاتا تو ملک میں حقیقی معنوں میں ایسا عوامی ‘ جمہوری ‘پارلیمانی اور فلاحی نظام رائج ہوجاتا ہے جہاں ہر پاکستانی کو اپنے حقوق حاصل ہوتے اور ہر ایک کے حقوق کا تحفظ آئین و قانون بھرپور انداز سے کررہا ہوتا جس کے بعد پاکستان امریکہ سے بڑی جمہوری قوت و سپر پاور اور چائنا سے بڑی اقتصادی قوت بن چکا ہوتا لیکن آج جمہوریت کے نام پر عوام کو بے وقوف بنانے والوں کے اجداد نے ایسا نہیں ہونے دیا۔
بھٹو کے بعد بینظیر بھٹو کے اقتدار میں کمیونسٹ پارٹی جیسی کوئی تحریک و قوت نہیں تھی وگرنہ بینظیر بھٹو تمام سیاسی اختلافات و مفادات سے بالاتر ہوکر ذوالفقار بھٹو کے عوامی و قومی نظریات کی پاسدار بنتے ہوئے عوامی و قومی مفادات میں اس تحریک کے ساتھ کھڑی دکھائی دیتیں مگر افسوس کے آج بینظیربھٹو ہم میں نہیں جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی عوامی مفادات کی بجائے بھٹو کے قتل کے اسباب پیداکرنے اور ان کے قتل کی ہدایات کیلئے عدالتی احکامات کاسہارا لینے والوں کے مقتدین کی صف و کیمپ میں دکھائی دے رہی ہے۔
کمیونسٹ پارٹی کے زوال کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے یوتھ ونگ ”کراچی نوجوان ” تحریک روح رواں الیاس خان بلوچ نے”اسلامک ڈیموکریٹک پارٹی ”کی بنیادڈالی اور کمیونسٹ پارٹی کے انقلابی منشورمیں دور جدید کے تقاضوں کی شمولیت کے بعد1999ء میں ”مقامی خود مختاری ” کا فارمولہ پیش کیا جس پر عملدرآمد کے ذریعے پاکستان کو حقیقی معنوں میں ایک جمہوری و فلاحی ریاست بنایا جاسکتا تھا اس منشور و فارمولے کو کتابی شکل میں پاکستان کے تمام اراکین پارلیمنٹ ‘ تمام بار کونسلز ‘ ماہرین سماجیات ‘ سیاسیات ‘ اقتصادیات ‘ دانشوروں’ اساتذہ ‘ وکلاء اور جج صاحبان کو ارسال کیا گیا۔
جسے آمر وقت کی نظروں میں ہیرو بننے اور اقتدار میں اپنا حصہ بٹورنے کے خواہشمند دانیال عزیز نے چوری کرکے نہ صرف اسے اپنے نام سے پیش کیا بلکہ مقامی حکومتوں کو صوبائی حکومتوں کے ماتحت بناکر جاگیردارانہ نظام کو بھی تحفظ دیکر مقامی حکومتوں کے نظام کو فوائد سے محروم کرکے صوبائی ومقامی حکومتوں کے درمیان اختیارات کی جنگ کا باعث بنایا گیا اور ملک میںمزید انتشار کو فروغ دینے کی سازش کی گئی جبکہ پرویز مشرف کے کرسی اقتدار سے علیحدہ ہوتے ہی مقامی حکومتوں کی سب سے بڑی مخالف جماعت میں شمولیت کے بعد اس جماعت کی تعریف و توصیف میں رطب اللسان دانیا ل عزیز کی جانب سے گزشتہ روز ایک نجی ٹی وی پر وسیم بادامی کے پروگرام میں کاشف عباسی کے سوالای کے جواب میں صحافیوں کو جانبداری کی گالی کا جواب اگر صحافی برادری کی جانب سے نہیں دیا گیا۔
تو کل نہ صرف ہر دوغلہ ، منافق ‘ مفاد پرست اور غدار وطن سیاستدان کھلے عام و سرعام صحافیوں کو گالیاں دیگا بلکہ صحافیوں اور میڈیا تنظیموں پر سیاسی جماعتوں کے حملوں کا سلسلہ بھی وسیع ہوتا جائے گا اور جمہوریت کے نام لیوا اس عمل کیخلاف ایوان میں قرارداد منظور کرنے کے بعد اگلے حملے کی منصوبہ بندی اور اس کے بعد اگلی قرارداد کی منظوری کی تیاری کے سوا کچھ اور نہیں کریں گے۔