ہماری تجارت یا ملاوٹ؟

Adulteration

Adulteration

ایک حدیث کا مفہوم ہے.حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا!ملاوٹ کرنے والا ہم میں سے نہیں ہے۔آج ہم ہر چیز میں ملاوٹ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔جیسے کوئی بڑا معرکہ مار لیا ہو۔دلچسپ بات یہ ہے کہ رونا روتے تھکتے نہیںکہ ہمیں خالص چیزیں نہیں ملتی۔جب ہم دوسروں کے لیے زہر کا انتظام کرتے ہیں تو دوا کے طلبگار کیوں ہیں؟۔ہمارے ایمان کمزور ہو گئے ہیں۔دین سے دور اور دنیا میں کھو گئے ہیں۔رحمان کو بھول کر شیطان کے ہمراہ ہو گئے ہیں۔

لال مرچ خرید کر لائو تولکڑی کا بورہ ملا ہوتا ہے۔جس سے معدے کے امراض ہوتے ہیں۔منافع خوری نے رشتوں کی پہچان بھولا دی ہے۔نیند میں نوٹوں کی گڈیوں کے خواب دیکھتے ہیں۔سبزی منڈی جائو ۔ہر دکاندار ملاوٹ کرتا نظر آتا ہے۔آم کی پیٹی خریدو تو پیٹی کے اوپر والے حصے میں اچھے بھلے،خوبصورت موٹے موٹے آم نظر آتے ہیں۔چند پیٹی کے آخر میں اعلی آم ہوں گے مگر درمیان میں تھرڈ قسم کے گلے سڑے آم ملیں گے۔موقع پر دیکھ لیا۔دونمبری کی بات کی تو الٹا گالیاں،ڈنڈے،مکے اپنے نام کروانے پڑتے ہیں۔

ایسے آم بکری کے حوالے کریں تو وہ بھی ناراضگی کا اظہار کرتی ہے۔دونمبری کی نشان دہی کرنے پر زخموںکی سوغات لیے ڈاکٹروں کے پاس جائیں تووہاں بھی ملاوٹ کا عروج ہوتا ہے۔انجکشن،میڈیسن کی دوگنی رقم دینی پڑتی ہے۔بات یہاں ختم نہیں ہوتی۔جو گولیاں لینے جائیں اس کی جگہ کوئی اور تھما دی جاتی ہیں۔مزے کی بات یہ ہے کہ ڈاکٹر حضرات میڈیکل اسٹور کے لوگوں سے ملے ہوتے ہیں۔

دوسرے لفظوں میں،انہی کے کم تعلیم یافتہ نقلی ڈاکٹر بیٹھے ہوتے ہیں۔سادہ لوگوں کو کیا خبر کے ان کے پاس بھی جعلی ڈگریاں ہوتی ہیں۔جیسے ہمارے آج کے حکمرانوں کے پاس ہیں۔ افسوس ناک بات یہ ہے کہ متلقہ ادارے سے بات کی جائے تو ائول تو آفیسر آتے نہیںہیں اگر آتے ہیں تو مک مکا کرکے،جیبیں فل کرتے،کولڈ ڈرنک پیتے اپنی راہ لیتے ہیں۔
فراز نے شاید انہی کے لیے شعر کہا ہے!
اب تو زہر بھی خالص نہیں ملتا فراز
لوگ پھرتے ہیں آدھے مرے ہوئے

سبھی الزام دوسروں پر تھوپ کر خود میاں مٹھو بن جاتے ہیں۔چینی لینے جائو تو سوجی کا گمان ہوتا ہے۔آٹے کو ہی دیکھ لیجئے۔ائول تو خالص آٹا ملتا ہی نہیں۔تاجر گندم سٹور کرکے،اس سے معدہ ،سوجی نکلواتے لیتے ہیں اور اعلی دام حاصل کر لیتے ہیں۔پھر آٹے کی درجہ بندی کر تے ہیں۔نمبر ون آٹا،فائن آٹا،سپر آٹا،فلاں آٹا،نجانے کتنے القابات سے نواز دیتے ہیں۔اب جب اتنے نام ہو جائیں تو بیچارہ اصل آٹاگمنام ہو ہی جائے گا۔ بات یہاں ختم نہیں ہوتی جب آٹے صاحب ہوٹل پر لائے جاتے ہیں۔ہوٹل مالک اسے سوڈے کا لیپ کرکے۔

سفید خوبصورت بنا دیتا ہے۔آٹا بیچارہ شرم سے پانی پانی ہوجاتا ہے۔جب تندور کی سرخ آگ سے ہوتا ہوا روٹی کے روپ میں باہر آتا ہے۔دیکھنے میں خوبصورت،مگر اپنی اصلیت تو کب کی کھو چکا ہوتا ہے۔ ہاتھ لگائو تو تیور بدل جاتے ہیں۔جسے درد سے کراہ رہا ہو۔پہلا نوالہ لیتے ہی محسوس ہوتا ہے جسے چیونگم چبا رہے ہوںاس کسان کی کیا حالت ہو گی جو خالص گندم تو فروخت کرتا ہے ،مگر خالص روٹی نہیں خرید سکتا۔خالص پھل،سبزیاں،اناج مارکیٹ میں دیتا ہے لیکن افسوس جب اسے ضرورت پڑتی ہے توائول تو خالص اشیاء اسے ملتی ہی نہیں،ملتی ہیں تو قیمت دگنی ادا کرنی پڑتی ہے۔ واہ رے میرے وطن کے محنتی کسان۔

اہل مسلم ہو کر بھی قرآن کو بھول بیٹھے ہیں۔ انگریز، یہودی، سبھی ہم سے شرماتے ہیں۔ ظاہر ہے جو اپنے پیدا کرنے والے کو بھول گیا،وہ اس کے فرمان کو کیا یاد رکھے گا۔کتنی شرمناک بات ہے پھر بھی اپنے آپ کو مسلمان کہلواتے ہیں۔کیا ہم مسلمان کہلوانے کے حقدار ہیں۔عبادت بھی خالص نہیں کرتے۔سجدے اللہ تعالی کو کر رہے ہوتے ہیں۔خیالات کاروبار میں لگے ہوتے ہیں۔ہاتھوں میں تسبحی،لبوں پر کلمہ،مگر دلوں میں ملاوٹ کرنے کے نئے نئے پلان بنا رہے ہوتے ہیں۔

Allah

Allah

دودھ اللہ تعالی کی کتنی پیاری نعمت ہے۔اس میں بھی ملاوٹ کیے بغیر نہیں رہ سکتے۔ ملاوٹ میں اتنے ماہر ہو گئے ہیں سچ اور جھوٹ کی تمیز نہیں کر پاتے۔ بیرون ملک والے دو نمبری کے لقب سے نوازتے ہیں اور ہمارے سر فخر سے بلند ہو جاتے ہیں۔ سب سے سستا نمک ہے ہم اس پر بھی رحم نہیں کرتے۔ گورے چٹے نمک میں پتھر پسیتے ہیں۔ اب تو یوں لگتا ہے جیسے ہماری رگوں میں خون نہیں ،ملاوٹ کے جراثیم گردش کر رہے ہیں۔
حال پوچھو تو مگر مچھ کے آنسو بہاتے نہیں تھکتے۔

مہنگائی ہے، کہاں سے پورے کنبے کا خرچہ پورا کریں؟ بدن کے لئے لباس نہیں، کھانے کیلئے غذا نہیں۔سونے کے لئے بستر نہیں۔ رہنے کیلئے چھت نہیں۔گلے شکوے کرتے ہماری زبان نہیں رکتی۔تمام برائیاں دوسروں پر تھوپ دیتے ہیں۔ لیکن اپنا احتساب نہیں کرتے۔ دوسروں کے گریبان نظر آتے ہیں، مگر اپنا گریبان نظر نہیں آتا۔ جب حلال میں حرام ملائیں گے تومصبتیں بڑھتی جائیں گی۔بے سکونی، بیقراری بڑھے گی۔

تو کیوں ناں حلال رزق کمائیں اور حرام کی لذت سے بچیں۔پھر ہمارے بچے بھی فرنبردار بنیںگے۔تمام ضروریات پوری بھی ہوںگے۔بشرطیکہ ملاوٹ کرنا چھوڑ دیں۔ملاوٹ ہی جہنم کا راستہ ہموار کر رہی ہے۔اور جنت میں جانے کیلئے دشواری کا سبب ہے۔ دوسروں کی بُرائیاں کرنے سے پہلے اپنے گربیان میں دیکھنا ہوگا۔ اپنی زبان کو جھوٹ سے بچانا ہوگا۔اپنے ہاتھوں کو ملاوٹ کرنے سے روکنا ہوگا۔ آیئے عہد کریں نہ ملاوٹ کریں گے نہ کرنے دیں گے۔انشااللہ۔

Majeed Ahmed

Majeed Ahmed

تحریر: مجید احمد جائی
majeed.ahmed2011@gmail.com