آج اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ہماری موجودہ حکومت کی پندرہ، سولہ ماہ کی ناقص حکمتِ عملی اور عوام کو مہنگائی بھوک و افلاس، دہشت گردی اور توانائی کے بحرانوں کے بروقت خاتمے سمیت دیگر معاملات میں خاطرخواہ ریلیف نہ دیئے جانے والے غیر مناسب رویوں اور منصوبہ بندیوں کی وجہ سے اسلام آباد کا ریڈزون دھرنوں ، انقلابوں اور لانگ مارچوں کی وجہ سے مچھلی بازار کا منظرپیش کرنے لگاہے، یقیناجس کی ذمہ دار نوازحکومت اور اِس کے وہ ضدی اور اَنا کے رانگ میں رنگے وزرااورمشیرہیں جنہوں نے اپنے مشوروںسے وزیراعظم نوازشریف کو استعفی نہ دینے کا کہہ کہہ کر اِنہیںایک ایسی بندگلی میں لاکھڑاکیا ہے کہ اَب جس سے واپس جاناجمہورو جمہوریت اور ذاتی اَناکی دیوی کے بت کو پاش پاش کرنے کے مترداف ہوگاکیوں کہ یہ بات نوازشریف کے وزرااور مشیرانِ خاص نے وزیراعظم کو سمجھادی ہے، اَب اِس لئے کوئی سوال ہی پیدانہیں ہوتاہے۔
وزیراعظم چاہتے ہوئے بھی اپنے تئیں اور کچھ ایساکرجائیں جو سب کے خلاف ہو ، اور گزشتہ دنوں اُس وقت رہی سہی کسر پوری ہوگئی جب پاکستان پیپلزپارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدرآصف علی زرداری نے رائیونڈمیں وزیراعظم نوازشریف سے ملاقات کی جب آصف علی زرداری نے ہرن کے گوشت،فش کباب، چکن اچاری، ملائی بوٹی، مٹن بریانی،رس ملائی، رس گلے ودیگرسوئٹ ڈشز کے ذائقے اپنی زبان سے حلق کے راستے اپنی بڑی چھوٹی آنتوں کو بھرنے کے بعد مزے سے یہ تجویددی کہ” وزیراعظم کسی بھی صورت استعفی ٰ نہ دیں، پارلیمنٹ مدت پوری کرے، جمہوری حکومت کو اسٹریٹ پاورسے چیلنج نہیں کرناچاہئے،جمہوریت کا ہر صورت دفاع کریں گے، آئین پہ سمجھوتے کا سوال ہی پیدانہیں ہوتا، انتخابات وقت پرہوں گے، اِن نکات پردونوں رہنماؤں میں اتفاق ہوا” گویاکہ ایک اور میثاقِ جمہوریت کا جنم ہوگیاہے،۔
اِس ملاقات کے لئے وزیراعظم نوازشریف کتنوں دِنوں سے بے چین تھے ، وہ اِن کے چہرے کے بدلتے رنگ اور آتی جاتی ہوائیاں بخوبی بتارہیں تھیں،کہ وزیراعظم نوازشریف موجودہ سیاسی بحران سے کتنے پریشان ہیں اور آج جب وزیراعظم نوازشریف کی ملاقات مصالحت پسندسابق صدر آصف علی زرداری سے ہوگئی ہے تو نوازشریف کے چہرے پر بھی ذراسی شادابی کے اثارنظرآنے لگے ہیں۔
اگرچہ آج بعض انتہائی معتبر سیاسی تجزیہ نگاروں اور مبصرین کا قوی خیال اور اِس میںکوئی دورائے نہیں ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے سابق صدرآصف علی زرداری سے ملاقات سے قبل خود کو اور اپنی حکومت کو موجودہ سیاسی بحران سے نکالنے کا حل اپنے استعفے سے نکال لیاتھامگر آج جب اِنہیں سابق صدرآصف علی زرداری نے یہ تجویددی کہ وزیراعظم کو استعفیٰ نہیں دیناچاہئے ” تو وزیراعظم نوازشریف نے اپنے استعفے سے مُلکی تاریخ میں سیاسی امرہونے کا ارادہ ترک کردیااور اَب یہ پوری طرح بندگلی میں پھنس کربھی موجودہ سیاسی بحران کا حل کسی تھرڈ امپائر کی مداخلت کے بغیرنہیں نکال سکیں گے،یعنی یہ کہ آج جوجماعتیں وزیراعظم نوازشریف کو استعفیٰ نہ دینے کا مشورہ دے رہی ہیں دراصل وہی جماعتیں چاہ رہی ہیں کہ وزیراعظم نہ صرف بندگلی بلکہ ایک ایسی بنداور تاریکی گلی میں پھنستے چلے جائیں جہاں سے واپسی کا کوئی راستہ نہ ہواور سوائے اِس کے کہ مُلک میں ایسے حالات پیدا ہو جائیں۔
Resignation
کوئی غیر سیاسی طاقت یا وہ جِس کا تذکرہ موجودہ سیاسی بحران میں تھرڈ امپائر کا استعارہ استعمال کرکے کیاجارہاہے وہ گودکر کوئی راستہ نکالے اور سب (نواز، عمران ، قادری اور دیگر ڈھکے چھپے جمہوری حامیوں )کو گردنوں سے دبوچ کر بندگلی سے باہر کھینچ لے، ایسے میں وقت و حالات یہ تقاضہ کررہے ہیں کہ قبل اِس کے کہ ایسی کوئی نوبت آئے وزیراعظم نوازشریف کو فوری طور پر اپنے دل و دماغ او رضمیر کی آواز سے مشورہ لینے کے بعدخودسے اپنے استعفے کا فیصلہ کرنازیادہ بہترہوگااور جہاں موجودہ حالات میں وزیراعظم کا یہ فیصلہ اِن کی سیاسی بصیرت اور آگاہی کا زندہ ثبوت ہوگاتووہیں یقینی طور پر وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی جماعت کو سیاسی امربناکر زندہ رکھنے میں معاون ومددگار بھی ثابت ہوسکتاہے۔
بہرکیف..!آج میں انقلابیوں اور لانگ مارچیوں کے طرزعمل اور سیاست سے بھی سخت نالاں ہوکہ اِنہو ں نے اپنے جائز و ناجائز مطالبات کو منوانے کے لئے اسلام آباد کے انتہائی حساس علاقے ریڈزون میں پچھلے گیارہ ، بارہ دِنوں سے گرمی اور بارش میں عورتوں ، بچوں اور اپنے مریدوں اور جنونیوں کے ہمراہ کھلے آسمان تلے پڑاؤ ڈال کر جس طرح اسٹریٹ پاور کا مظاہرہ جاری رکھاہواہے یہ کوئی مناسب رویہ نہیں ہے، اِنہیں اپنے مطالبات منوانے کے لئے ایسے راستے اپنانے چاہئے تھے جن سے کسی کو تکالیف کا سامنانہ ہوتااور مُلکی معیشت کو 500ارب ڈالرز کا بھی نقصان نہ ہوتااورسارے معاملات افہام و تفہیم سے نتیجہ خیزانداز سے حل ہوجاتے۔
آج ریڈزون میںز بردستی کا پڑاؤ ڈالے اور کسی بھی لمحے جارحیت کا مظاہرہ کرنے پر تلے بیٹھے افراد کے جوش وخروش کودیکھتے ہوئے اِس بات کا اندازدہ لگاناکوئی مشکل نہیں رہاہے کہ انقلابیوں ،لانگ مارچیوںاور دھرنیوں کے سربراہان اور ذمہ داران کے ارگردمنڈلاتے مایوس سیاسی گھوڑوں اوراحساس کمتری میں مبتلاسیاست دانوں نے عمران و قادری کو چڑھاکردونوں کو ہی بندگلیوں میں دھکیل دیاہے،آج کوئی شک نہیں ہے کہ عمران و قادری کے اردگردمنڈلاتے مفادت پرست یہی ہارے ہوئے سیاسی گھوڑے جو وزیراعظم نوازشریف اور اِن کی حکومت سے بغض رکھتے ہیں۔
اِنہی لوگوں نے عمران خان اور طاہرالقادی کو اپنے اپنے مقاصدکے لئے استعمال کیاہے اورآج دونوں کے اردگرمنڈلاتے خوشامدیوں اور نوازشریف کی جمہوریت کے مخالف عناصر کی یہی کوشش ہے کہ کسی بھی طرح سے عمران و قادری کے درمیان جاری رہنے والا مذاکراتی عمل کامیاب نہ ہونے پائیں اور دنوں ہی اِسی بندگلی میں پھنسیں رہیں جہاں پر اِن لوگوں نے دونوں کودھکیل کر پہنچادیاہے،آج اگرایساہی رہااور مذاراتی عمل سے بھی کوئی حل نہ نکلاتو پھر یقیناکسی اَنہونے کی اُمیدپیداہوجائے گی جس کا فائدہ نہ حکومت کو ہوگااور نہ عمران و قادری کے ہاتھ بھی سوائے کفِ افسوس کہ کچھ آپائے گا، آج دن بدن بگڑتی ہوئی صورت حال اورریڈزون میں پڑے عمران و قادری کے دھرنوں اورمطالبات کے خلاف حکومت کے حامیوں ن لیگ مولانافضل الرحمان والوں کی مختلف شہروں میں ریلیاں نکلنے اور دھرنوں کا سلسلہ بھی شروع ہوچکاہے۔
جیساکہ موجودہ سیاسی بحران کو مزیدخراب کرنے کے لئے مولانافضل الرحمان پہلے ہی سخت انداز سے یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر ہم نے بھی عمران و قادری کے خلاف دھرنے دینے اور لانگ مارچوں کا سلسلہ شروع کردیاتوپھر بات کنٹرول سے باہر ہوجائے گی ، موجودہ سیاسی بحران میں فضل الرحمان کا دھمکی آمیزعندیہ حالات کو مزیدخراب کرنے اور نوازشریف کا ہمدرردبن حکومت کو مشکل میں ڈالنے کے مترادف ہے اور اَب جے یو پی کے کارکنان نے بھی کراچی و سکھر سمیت مُلک بھر میں ریلیوں اور دھرنوں کا سلسلہ شروع کردیاہے موجودہ حالات میں ن لیگ اور فضل الرحمان والاکا جارحانہ طرزعمل سے لبریز دھرنوں کے سلسلے کو نہ روکاگیاتواِس کا قوی اِمکان موجود ہے کہ یہ کسی بھی وقت حکومتی رِٹ کو تہس نہس کرکے رکھ سکتاہے اور مُلک کو خانہ جنگی کی طرف لے جاسکتا ہے۔
Azam Azim Azam
تحریر : محمد اعظم عظیم اعظم azamazimazam@gmail.com فون نمبر: 03312233463