اسلام آباد میں آج کل عمران خان اور ڈاکٹر طاہرالقادری کے دھرنے اور احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جس کا بنیادی مقصد حکومت اور خاص کر شریف فیملی پر دبائو بڑھانا ہے کہ وہ اقتدار چھوڑ دیں اور نئے انتخابات کا اعلان کریں دوسری طرف پورا نظام بدلنے کے لیے انقلاب کا سلوگن استعمال کیا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے پاکستان میں آزادی مارچ کا اعلان اس روز کیا جس دن قوم اپنا 68 ویں یوم آزادی منا رہی تھی اس پر تحریک پاکستان کے ایک بزرگ نے کہا کہ ہماری قوم سیاسی قیادت کو کیا پتہ کہ یہ ملک ہندو اور انگریز سے کیسے حاصل کیا گیا۔
اس کے لیے ہمارے خاندانوں نے کیا کیا قربانیاں دیں۔ ہمیں خدشہ ہے کہ یہ آزادی مارچ کہیں بربادی مارچ نہ بن جائے اس لیے کہ پاکستان معاشی طور پر اتنا مضبوط نہیں ہو سکا کہ ایٹمی قوت ہونے کے باوجود دنیا کے سامنے فخر سے چل سکے یا اقوام عالم کو آنکھیں دکھا سکے اس وقت بھی پاکستان میں 6 دہائیوں اور مختلف اقدامات کے باوجود ہمارے ہاں گروتھ ریٹ اوسطاً 5 فیصدسے نہیں بڑھ سکی جبکہ غربت، مہنگائی اور بیروزگاری میں اضافہ پریشان کن حد تک بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ 20 کروڑ کی آبادی میں اندازاً 10 کروڑ سے زائد نوجوان ہیں جن کی اکثریت بیروزگار ہے۔
جماعت اسلامی بھی قاضی حسین احمد کے دور میں مارچ کرتی رہی ہیں۔ غرض ایسے دھرنے وغیرہ ہمارے قومی سیاسی نظام میں معمول کا حصہ ہیں مگر اس وقت پاکستان جن مشکل حالات سے دوچار ہے اس میں کیا ایسے کام کرنے کی ضرورت ہے اگر ہے تو کیوں؟
Pakistan
اس وقت پاکستان میں سیاسی استحکام لنے کیلئے سب کو مل جل کر سوچنا چاہیے پہلے پاکستان کی معیشت کراچی کے حالات اور امن وامان کی پریشان کن صورتحال کی وجہ سے مشکلات سے دوچار تھی اب اس طرح کی سرگرمیوں سے صنعتی اور معاشی طور پر مزید مسائل بڑھ سکتے ہیں۔ 2012ء میں پاکستان میں عوام اپنی آمدن کے 47.7 فیصد وسائل صرف کھانے پینے کی اشیاء پر صرف کر رہے تھے۔
جس میں 28 فیصد خرچہ صرف بجلی، گیس، پٹرول اور سی این جی وغیرہ پر ہو رہا ہے۔ پاکستان کو سیاسی اور معاشی طور پر مضبوط بنایا جائے ورنہ آنے والے وقت میں عالمی سطح پر ہماری اہمیت مزید متاثر ہو سکتی ہے۔ حالات کا تقاضا ہے کہ ملک میں امیروں کی نہیں غریبوں کی تعداد کم کی جائے۔ زیادہ سے زیادہ لوگوں کو روزگار دیا جائے۔ میرے وطن کی سیاست کا حال مت پوچھو گھری ہوئی ہے طوائف تماش بینوں میں