اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس ناصر الملک کا کہنا ہے کہ دھرنے کے شرکاء سرکاری ملازمین کو ہراساں کرتے ہیں شاہراہ دستور کو کلیئر کرایا جائے کل ہم اسی راستے سے عدالت آئیں گے۔
سپریم کورٹ میں ممکنہ ماورائے آئین اقدام سے متعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس ناصر الملک کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بنچ نے کی۔ سماعت کے دوران چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ شاہراہ دستور کی بندش کی وجہ سے قومی اداروں کے ملازمین کو اپنے دفاتر پہنچنے میں سخت پریشانی کا سامنا ہے۔
دھرنے کے شرکاء نے عدالت عظمی پر اپنے کپٹرے لٹکا رکھے ہیں، سرکاری ملازمین کی تلاشی لی جا رہی ہے اور انھیں ہراساں بھی کیا جا رہا ہے۔ عدالت نے پاکستان تحریک انصاف، عوامی تحریک اور اٹارنی جنرل کو حکم دیا کہ فریقین مل بیٹھ کر شاہراہ دستور کو خالی کرنے کے حوالے سے متفقہ لائحہ عمل طے کر لیں اور کل اس کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائی جائے۔
چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ شاہراہ دستور کو کلیئر کرایا جائے تا کہ کل ہم اسی راستے سے عدالت آ سکیں، ہمیں سیاسی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرنا چاہتے، دھرنے والے کسی دوسرے مقام پر اپنے مطالبات کی منظوری تک دھرنا جاری رکھیں عدالت کو کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
جسٹس انور ظہیر جمالی کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ ڈنڈا بردار پرامن کھیل کے لئے آئے ہیں یا کہ شادی میں ڈانڈیا کھیلنے کے لئے آئے ہیں جب کہ جسٹس جواد نے کہا کہ دھرنا دینے والوں میں ایک شخص دوہری شہریت رکھتا ہے، سڑکوں پر دھرنے دینا کینیڈا میں ہوتا ہو گا۔
عدالت نے تینوں فریقین کو شاہراہ دستور کلیئر کرانے کے حوالے سے رپورٹ سپریم کورٹ میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے کیس کی سماعت 27 اگست تک ملتوی کر دی ہے۔