سٹینفورڈ (جیوڈیسک) سٹینفورڈ یونیورسٹی کے شعبہ کیمسٹری کے پروفیسروں کی تیار کردہ یہ ڈیوائس عام درجہ حرارت پر پانی کو دو گیسوں میں تقسیم کر دیتی ہے اور یہ مکمل طور پر امیشن فری ہے۔
اگلے برس 2015 میں امریکی صارفین ٹویوٹا کمپنی کی فیول سیلوں سے چلنی والی گاڑیاں خرید سکیں گے۔ زیادہ تر کاریں جس ہائیڈروجن کو بطور ایندھن استعمال کریں گی وہ قدرتی گیس سے حاصل کی جائے گی۔ قدرتی گیس ایک فوصل فیول ہی ہے۔
اور عالمی حدت میں اضافے کا باعث بھی۔ سائنسدانوں کی تیار کردہ ڈیوائس ایک عام ٹرپل اے بیٹری سیل کی برقی توانائی سے بذریعہ الیکٹرولیسز یا برق پاشی پانی کو ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کر دیتی ہے۔ بیٹری سے حاصل شدہ کرنٹ پانی میں رکھے گئے دو الیکٹروڈز کی مدد سے پانی کو گیسوں میں تقسیم کر دیتا ہے۔
یہ پہلا موقع ہے کہ کسی نے مہنگی دھاتیں استعمال کیے بغیر پانی کو اس قدر کم وولٹیج پر ہائیڈروجن اور آکسیجن میں تقسیم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ اس کو ایک بڑی کامیابی قرار دیا جا رہاہے۔
کیونکہ عام طور پر اس قدر کم وولٹیج پر پانی کے مالیکیولز کو توڑنے کے لیے پلاٹینم اور اریڈیم جیسی دھاتوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس طریقہ کار سے ہائیڈروجن تیار کرنے والے صنعتی ادارے اربوں روپے کی بچت کر سکتے ہیں جو وہ بجلی کی مد میں خرچ کرتے ہیں۔
یونیورسٹی کے یہ محققین اب ایک ایسی ڈیوائس کی تیاری کا منصوبہ رکھتے ہیں جو سولر انرجی سے حاصل شدہ بجلی سے پانی کو مالیکیولز میں تقسیم کرے گی۔