کوئی جوآپ سے یامجھ سے پوچھے کہ درپیش حادثات اور کوتاہیوںکی وجہ سے اگرکوئی گاڑی کھائی کی طرف جا رہی ہو توایسے نازک لمحے میں مسافروں کی یاکسی اور خیرخواہ کی عدم اعتمادی کے باعث ڈرائیور بدل دینے کی مانگ کرنا کیسا فیصلہ ہو گا؟
تو یقینا کسی بھی صاحبِ عقل کے لیے فیصلہ کرنا بہت سحل سی با ت ہے۔ جی ہاں! آپ ٹھیک سمجھے ہیں میرااشارہ ملک میں دئیے جانے والے دھرنوں کے لیڈرز اور ان کے شرکاء کی طرف ہے اور خاص طور پر وہ جو استعفی کی با ت کر رہے ہیں۔ fb پر عمران خان صاحب کی فین کمیونٹی کی ممبر میں تب سے ہوں جب وہ سیاسی طور پر ابھی اس میدان میں نئے تھے۔یہ کہنا بھی غلط نہیں ہو گا کہ میں ان نوجوانوں میں سے ایک ہوں جو ان کے ساتھ شانہ باشانہ ہو کر پاکستان زندہ باد کے پر عزم نعرے لگاتے ان کا دم بھر تے ہیں ۔ وہ یقینا قابل ہیں اور بہت زیادہ exposureبھی رکھتے ہیںمگر جس بات نے لکھنے پر مجبور کیاوہ ایک اْدھیڑ عمر بزرگ تھے جن کی بیوی گھر پر بیمار پڑی تھی اور نجانے کتنے بھاری دل کے ساتھ انھوں نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دی تھی ۔ بھائی کے دروازہ کھولنے پراندر داخل ہوتے ہوئے انھوں نے چند لمحے خاموشی کے بعد بڑی ہی کمزور اور التجائیہ آواز میں پوچھا تھا ” پُتر ٠٠٢ روپے مل جائیںگے ،دیہاڑی نہیں لگ رہی میں جلدہی لوٹا دوں گا۔
ساتھ والے کمرے میں بیٹھی ان کی یہ بات سن کر ایک دم خدابڑی شدت سے یاد آیاتھا وہاں بیٹھی ان کو دیکھے بغیر بھی میں ان بزرگ کے احساسات کا اندازہ اچھے طریقے سے کر سکتی تھی ۔ان کے لہجے میں ایسی بے چارگی تھی کہ ان کے منہ سے ادا ہونے والے الفاظ ان کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے تھے۔ حالت ایسے سوالی جیسی تھی جو بڑا پُر اُمید ہو کر سوال کر رہا ہو اور ساتھ ہی سوال رد کر دئیے جانے کے خوف سے اس کا دل مٹھی میں آیا ہو۔
جناب! بات بظاہر تو بڑی عام سی محسوس ہوتی ہے کہ یہ بھی کوئی لکھنے والی بات ہوئی؟ مگر ذرارکئیے! اور چند لمحوں کو سوچئیے کہ ایسی حالت میں کسی کے احساسات کیاہونگے؟ ان چند روپوں سے وہ سفید پوش بزرگ اپنی کون کونسی ضروریات کو پوراکرلیں گے؟ اور کتنے دن تک؟ نجانے ایسے اور کتنے لوگ ہونگے جو اس وقت انھی حالات سے دوچار ہونگے ۔ وہ انقلاب، آزادی اور حق کے لیے کس کا دروازہ کھٹکھٹائیں؟
عمران خان صاحب کے مطالبات آئینی اور قانونی طورپر جائز اور صحیح ہیںلیکن یہ موجودہ حالات میں کتنے صحیح ہیں؟ یہ ضرور غور طلب بات ہے۔ ایک جگہ پڑھا تھا “sometimes something can be legal but not right”۔ اردو میں اس لیے نہیں لکھا کہ شاید اس کے مفہو م کے ساتھ مکمل انصاف نہ کر پاتی۔اور آج عمران خان صاحب کی انقالابی مارچ کو دیکھ کر یہ بات بہت سہی محسوس ہوتی ہے۔
موجودہ صورتِ حال میں ملک پہلے ہی سیاسی ، سماجی اور معاشی بحران سے دوچارہے ایسے میں اسے سیاسی طور پر مزید derailکرنا کہاں کی عقل مندی ہے ؟ چنددن کے دھرنے سے ملکی معشیات کو 8ارب سے زائد کا نقصان ہو چکا ہے ۔ جانتے ہیں اس کا سب سے کڑوا گھو نٹ کو ن پئیے گا؟ لوئر میڈل کلاس طبقہ! آزادی ، انقالاب مارچ سے کوئی پو چھے تو سہی کہ بات احتساب پر آتی ہے تو اس کا احتساب کون کر ے گا؟ دھرنوں کی وجہ سے دیہاڑی کر کے کمانے کھانے والا انسان لاچار ہو کر گھر بیٹھ گیااوراس کے بھوکے بچے لاچارگی ، مان ، امید سے اس کا منہ تکتے رہے مگر وہ چاہتے ہوئے بھی انھیں دو وقت کی روٹی فراہم نہ کر سکا۔ ان معصوم بچوں کی بھوک کا مداوا کون کرے گا ؟ یا اس بیمار کا جو تڑپتا رہا اور وقت پر ہسپتال نہ پہنچ سکا؟ ڈالر 100سے 101اور پھر 1.23ہو گیا۔ اس کے لیے جواب دہ کون ہے؟
Nawaz Sharif
اگر حکومت عوام کا مسئلہ ہے، عام آدمی کا مسئلہ ہے تو بتائیے یہ سب کس کے مسائل ہیں؟ بات کو دھاندلی پر لے آیا جائے تو وزیرِاعظم اگر واقعی چور ہیں تو ایسے ہیں کہ پکڑ ے جانے پر بولیں، جب اگلی دفعہ پکڑا جائوں گا تو پوچھنا ابھی جو بھی ہے میراہے۔ کمال ہے ! جمہوریت اگر آسمان سے بھی ٹپکتی تو ہمارے ہاں اس بات کو لے کر اختالاف ہو جا تا کہ اسے ٹپکتے ہوئے پہلے دیکھا کس نے تھا۔۔۔۔۔!!
بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ آج 67سا ل گزرنے کے بعد بھی ہم لوگ سیاسی طور پر بالغ نہیں ہیں ۔ ہمیں سیاست کرنا نہیں آئی ۔ ہمارے لیے سیاست صرف “کرسی ” تک محدود ہے اور بس ۔۔! جس کو اس ملک میں سیاست بولا جا رہا ہے معذرت کے ساتھ وہ چھینا جھپٹی ، بھاگ دوڑ، اورلاٹھی بھینس والی کوئی انتشار آمیز شے تو ضرور ہے مگر سیاست نہیں۔۔!!! ہاں سیاست وہ ضرور ہے جو یہ سکرپٹ لکھ رہی ہے اور ڈرامہ ہمارے ملک میں ہو رہا ہے ۔ اور اس پر یہ کہ سب جانے بنا نچاچ رہے ہیں کہ وہ تو بس کٹھ پتلیاں ہیں۔
کو ن سمجھائے کہ ہوش میں آئیے اور سڑکوں پر نکل کر آم آدمی کی زندگی پر امن احتجاج سے بے امن کر دینے کی بجائے تمام معاملات کو سیاسی مشاورت اور مذاکرات سے حل کریں۔
اور اس بات کو سمجھیں کہ وزیرِاعظم کے جانے سے کچھ نہیں بدلے گا بدلنا ہے تو سسٹم کو بدلیئے اور وہ پولیسیزاور ریفارمز عوام کے سامنے رکھیں جو ابھی تک قطعا نہیں رکھے گئے تا کہ پتہ چلے کہ انقلاب آخر لایا کیسے جا رہا ہے ؟کیونکہ وزیرِاعظم کو بدلنا نہ تو سسٹم کی بدلی ہے اور نہ ہی انقلاب کی نوید۔۔!