میعاری تعلیم

School

School

میعاری تعلیم کے فروغ کے بغیر کوئی قوم ترقی نہیں کر سکتی۔ پرائیویٹ اکیڈمیاں صنعت کا روپ دھار چکی ہیں۔ سرکاری کالجوں کی طالبات پرائیویٹ اکیڈمیوں میں پڑھ کر آگے بڑھ رہی ہیں جبکہ ان کالجوں کے اساتذہ گھر بیٹھے لاکھوں روپے تنخواہ لے رہے ہیں۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ دنیا بھر میں درپیش چیلنج سے نمٹنے کیلئے انگلش ، اردو کے ساتھ ساتھ عربی کی تعلیم بھی ضروری ہے۔ تاکہ نوجوان آقائے نامدارۖ کی دی ہوئی تعلیم سے روشناس ہوں۔ اور پاکستانی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک اچھے مسلمان بھی بن سکیں۔ ضلع لیہ میں نہم اور میٹرک کا رذلت انتہائی مایوس کن رہا۔ کوئی بھی معاشرہ تعلیم کے بغیر ترقی نہیں کر سکتا۔ ہماری حکومت کو اس جانب توجہ دینا ہو گی۔

وزارت تعلیم کے مطابق پاکسان میں غیر رسمی سکولوں کی تعداد بیس لاکھ سے زائد ہے۔ دیہاتوں کے اکثر سکولوں میں ایک کمرے کے سکول موجود ہیں۔ جن کی چاردیواری تک نہیں۔ موجودہ حکومت نے غیر رسمی سکولوں پر توجہ کم کر دی ہے۔ نیشنل فائونڈیشن کہیں پر نظر نہیں آرہی ہے۔ اگر حکومت نیک نیتی سے تعلیم اور صحت پر توجہ دے تو واقعی ہی پڑھا لکھا توانا پاکستان وجود میں آسکتا ہے۔ یکساں نصاب کو رائج کر کے ہی تعلیم کے میعار کو بہتر بنایا جا سکتا ہے۔ اور مختلف نعروں سے جان چھڑا کر قومی یکجہتی کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔

دوسری جانب این جی اوز اگر تعلیم پر توجہ دیں تو اس ملک خصوصاً جنوبی پنجاب کے پسماندہ علاقوں میں ایسے ذہین نوجوان جو وسائل کی کمی کے باعث آگے نہیں بڑھ سکتے انہیں موقع مل سکتا ہے۔

ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن ، ایم این اے سید ثقلین بخاری ، ایم پی اے چوہدری اشفاق احمد، ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ کے مطابق میاں نواز شریف، میاں شہباز شریف کی حکومت پنجاب بھر خصوصاً ضلع لیہ میں تعلیم پر خصوصی توجہ دے رہی ہے۔ اس سلسلہ میں لیہ میں BZU کیمپس GC یونیورسٹی گورنمنٹ کالج فیصل آباد، اور سرگودھا یونیورسٹی کے کیمپس بھی موجود ہیں۔ جہاں پر ایم اے، ایم ایس سی سمیت بی اے، بی ایڈ، ایم ایڈ ، ایم فل کی کلاسیں چل رہی ہیں۔ لیکن ان اداروں کی فیسیں اتنی زیادہ ہیں کہ عام نوجوان ان میں داخلہ لینے کا خواب ہی دیکھ سکتا ہے۔ دیگر سرکاری اداروں میں ٹیکنیکل کالج ، کامرس کالج ، پوسٹ گریجویٹ کالج اور نرسنگ کالج لائیو سٹاک اور زراعت کے سکول بھی موجود ہیں۔ اسی طرح لیہ کی تحصیل کروڑ میں ڈگری کالج گرلز و بوائز اور کامرس کالج موجود ہے۔

جنوبی پنجاب کا پسماندہ ضلع لیہ تعلیمی لحاظ سے کافی آگے نکل چکا ہے۔ یہاں کے نوجوانوں میں ذہانت کا اندازہ اس بات سے کیا جا سکتا ہے کہ درجنوں طلباء تعلیم حاصل کر کے اس وقت ڈاکٹر انجینئر بننے کے ساتھ ساتھ فوج اور پولیس میں افسر ہیں۔ ضلع بھر میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں نے اس وقت صنعت کا درجہ اختیار کر لیا ہوا ہے۔ یہاں پر مقامی ایم پی اے مہر اعجاز اچلانہ کی کوششوں سے اس وقت بہاول الدین ذکریا یونیورسٹی کا کیمپس ایم پی اے کے والد کے نام سے بہادر کیمپس رکھا گیا ہے۔ جبکہ گرلز کالج کروڑ کی بس فنڈ نہ ہونے سے کافی عرصہ سے گیراج میں کھڑی ہے۔ اسی طرح فتح پور، چوک اعظم ، کوٹ سلطان اور 90/ML سمیت تحصیل چوبارہ جیسے پسماندہ علاقے میں ڈگری کالج موجود ہے۔

جبکہ یہاں پر ایم این اے صاحبزادہ فیض الحسن نے 5 کروڑ روپے کی گرانٹ سے کامرس کالج کو فنڈنگ کی ہے۔ جس پر کام جاری ہے۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ ضلع بھر کے خصوصاً گرلز کالجز کی طالبات سٹاف کی کمی یا تعلیمی میعار کے فقدان کے باعث کالجز میں داخلے کی حد تک تو ہوتی ہیں۔ لیکن پرائیوٹ اداروں اور اکیڈمیوں میں تعلیم حاصل کر کے امتحان دے رہی ہوتی ہیں۔ اور سٹاف آرام سے تنخواہیں وصول کر کے حکومت کو کروڑوں روپے کا ٹیکہ لگا رہا ہے۔

جس سے اداروں کے تعلیمی میعار کا اندازہ کیا جا سکتا ہے۔ لیہ میں پرویز الٰہی دور میں اس وقت کے ایم پی اے مہر فضل حسین سمراء نے کروڑوں روپے نے ٹیکنیکل یونیورسٹی برائے خواتین بنوائی جس کا 80 فیصد کام مکمل ہو چکا تھا لیکن حکومت کے تبدیل ہوتے ہی شریف برادران نے اس دور کے دیگر منصوبوں کے ساتھ ساتھ ٹیکنیکل یونورسٹی برائے خواتین کا کام بھی روک دیا۔ اور اب اس جگہ پر BZU کی کلاسسز لگائی جا رہی ہیں۔ اگر ٹیکنیکل یونیورسٹی کو فنکشنل کر دیا جاتا تو اب تک ضلع لیہ کی ہزاروں طالبات انجینئر اور ہنرمند بن چکی ہوتی۔ اور ملک و ملت کا نام روشن کر رہی ہوتی۔ ضلع لیہ میں معذور بچوں کیلئے کوئی ہائی سکول موجود نہیں ہے۔ امسال ضلع بھر کے 30 سپیشل بچوں نے مڈل کا امتحان پاس کیا اور 50 کے قریب بچے ہشتم جماعت میں زیر تعلیم ہیں۔

Private Buildings

Private Buildings

ہائی سکول نہ ہونے سے کامیاب طلباء کو ڈی جی خان اور ملتان میں بھی داخلہ نہ مل سکا۔ جس کے بعد بچوں کا مستقبل دائو پر لگ چکا ہے۔ سپیشل ایجوکیشن سکول لیہ کروڑ چوبارہ کی پرائیویٹ بلڈنگز کا کرایہ 25 سے 40 رزار روپے تک پے۔ علم میں آیا ہے کہ سپیشل ایجوکیشن سکول کروڑ کیلئے محکمہ زراعت کے سیڈ فارم میں تجویز مکمل ہو چکی ہے۔ جس کا انتقال باوجو نہ ہو سکا ہے۔ چوک اعظم میں میاں شہباز شریف کی جانب سے دانش سکول کے قیام کا اعلان کیا گیا تھا لیکن آج تک قائم نہ ہو سکا ہے۔

ضلع لیہ کے اکثر دیہاتوں خصوصاً تحصیل چوبارہ اور نشیبی علاقوں میں اب بھی درجنوں سکول بغیر چھت اور چار دیواری اور عملہ کے چل رہے ہیں۔ جہاں پر ایک سکول میں صرف ایک استاد ہے جو کہ درجہ چہارم کے ملازمین کا کام بھی خود کرتا ہے۔ ان سب مسائل کے ہونے کے باوجود لاہور میں بیٹھے حکمرانوں کے سر پر جوں تک نہیں رینگ رہی ہے۔ ضلع لیہ کے عوام کب تک لاہور والوں کو راہ تکتے رہیں گے۔

Students School

Students School

ضلع لیہ میں لٹریسی ریٹ 79 فیصد ہے جن میں 39 فیصد مرد اور 40 فیصد خواتین ہیں اس کے باوجود امسال نہم اور دہم کا رزلٹ نہایت مایوس کن رہا جس سے بہت سارے طلباء نے بورڈ کو مردِ الزام ٹھہراتے ہوئے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

تحریر: طارق پہاڑ