آجکل سوشل میڈیا پر کچھ سیاستدانوں کی تصاویر لگا کر یہ پوچھا جارہا ہے کہ آپ پاکستان میں کس کی حکومت چاہتے ہیں؟ایسے تمام دوست سن لیں جو اس قسم کے سوالات اُٹھا رہے ہیں ،نہ صرف پاکستان بلکہ پوری کائنات پرصرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حکمرانی قائم ہے باقی سب جھوٹ ہے ۔بہت ہی افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ایک اہم سیاسی جماعت کے سربراہ اپنے ہی وطن کے شہروں کو آگ لگانے کی بات کررہے ہیں ،ارے بھائی آگ لگانی ہے تو اُن کو لگائو جو دھاندلی کے ذمہ دار ہیں،کبھی کسی کو دھاندلی کا ذمہ دار کہتے ہو اور کبھی خوشامد پر اُتر آتے ہو،یہ درست رویہ نہیں خان صاحب یہ جو پبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔
سربراہ تحریک انصاف عمران خان کے وکلاء نے سابق چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس افتخار محمد چودھری کے ہتک عزت کے نوٹس کا جواب دیتے ہوئے خوشامد بھی کی اور آئندہ بھی ایسے الفاظ برداشت کرنے کی اُمید ظاہر کی جن میں اُن کی ہتک عزت کا عنصر موجود ہوگا۔جواب میں کئی بارافتخار چودھری کو سلام پیش کیا ۔کئی مرتبہ بصد احترام لفظ استعمال کیا، خدمات کو سراہا گیاہے،ایک آمر کے خلاف علم جہاد بلند کرنے پر غیرسیاسی لیڈر بھی تسلیم کیا گیا ،پوری پاکستانی قوم کی طرف سے بھی سلام پیش کیا گیا اور ساتھ ہی کسی حد تک دھاندلی کا ذمہ دار بھی قرار دیا گیا ہے۔
عمران خان کے وکلاء نے اپنے موکل کے بارے میں یہ اعتراف کیا کہ وہ الیکشن2013ء میں ہونے والی دھاندلی اور پھر مسلسل ناانصافی کی وجہ سے انتہائی مایوس ہیں جس کی وجہ سے وہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان کے خلاف زیادہ سخت الفاظ استعمال کربیٹھے تھے ،جواب میں یہ بھی کہا گیا کہ افتخار چودھری کا نصب العین ملک کی خدمت رہا ہے نہ کہ پیسہ اکٹھا کرنا،اس بات کا بھی اقرار کیا گیا کہ اُنہوں نے ماضی میں خاص طور پر وکلاء تحریک کے دوران ذہنی اذیت اور اوچھے ہتھکنڈوں کا ایسے حوصلے اور صبر کے ساتھ مقابلہ کیا۔
جو کسی عام انسان کے بس کی بات نہیں،عمران خان کے وکلاء نے افتخار چودھری کے ہتک عزت کے نوٹس کے جواب میں الفاظ کا جال کچھ اس طرح بنا کہ کبھی تو سابق چیف جسٹس آف پاکستان کو عام انسان کی بجائے فرشتے کا درجہ دے دیااور کبھی الیکشن 2013ء میں ہونے دھاندلی کا ذمہ دار بھی ٹھہرا دیا۔جس طرح گزشتہ روز عمران خان نے دھرنے میں خطاب کرتے ہوئے ایک بار پھر افتخار چودھری کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے دھاندلی کی ذمہ داری اُن کے سر ڈالی اُس سے معلوم ہوتا ہے۔
ہتک عزت کے نوٹس کے جواب میں بذریعہ خوشامد باربار سلام پیش کرنے کا مقصد سابق چیف جسٹس کو عمران خان کے خلاف مقدمات سے دور رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا کہ جب عمران خان اس حد تک مایوس ہوچکے ہیں کہ اُن کوایک محب وطن ،قوم کے بے لوث خادم اور خاص طور پر آمر وقت کے سامنے ڈٹ جانے والے باعزت سابق چیف جسٹس آف پاکستان کی شخصیت پر الزمات لگاتے وقت یہ احساس نہیں رہتا کہ وہ کیا بول رہے ہیں تو معذرت کے ساتھ عرض ہے۔
اُن کو اس وقت دھرنے کی قیادت کرنے کی بجائے نفسیاتی ڈاکٹر زکے پاس زیر علاج ہونا چاہئے ،دوسری صورت میں اُن کو اپنے بیان پر ڈٹ جانا چاہئے کہ سابق چیف جسٹس آف پاکستان دھاندلی کے ذمہ دار ہیں،جہاں تک بات ہے الیکشن2013ء میں ہونے والی دھاندلی کی تو ہر پاکستانی جانتا ہے کہ الیکشن میں دھاندلی نہیں ہوئی بلکہ دھاندلی میں الیکشن ہوئے ہیں ۔دھاندلی کی ذمہ داری کسی ایک فرد پر ڈالنے کا مطلب یہ ہوگا کہ باقی 20.18کروڑعوام کی کوئی غلطی نہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ہر کسی نے اپنی بساط کے مطابق کردار ادا کیا ہے۔
میرے الفاظ کا ہر گز یہ مطلب نہیں کے میری سیاسی ہمدردیاں کسی خاص جماعت کے ساتھ ہیں راقم بلا امتیاز بات کرنے کاعادی ہے ۔بات کرنے کا مقصد یہ ہے کہ خالی ن لیگ کے اُمیدواروں نے دھاندلی نہیںکی بلکہ تحریک انصاف سمیت دیگر تمام جماعتوں کے اُمیدواروں نے اپنی کامیابی یقینی بنانے کیلئے ہر جائزو ناجائز طریقہ استعمال کیا۔ آخر میں وہی ہوا جو ہمیشہ سے ہوتا آرہا ہے۔انتظامی ڈھانچے نے جس جماعت کو سازگار ماحول فراہم کیا اُس کے اُمیدوار کامیاب ہوگئے۔
Imran Khan
عمران خان کے جواب میں یہ عنصر بھی ملتا ہے کہ الیکشن 2013ء میں ن لیگ کی طرح تحریک انصاف کو بھی کچھ زیادہ حصہ مل جاتا تو پھر دھاندلی قابل قبول ہوسکتی تھی۔دھرنوں اور الزامات کی برسات کا عمران خان کو کوئی فائدہ ہونہ ہوایک بات تو طے ہے کہ آئندہ الیکشن میں دھاندلی کے چانسز کم سے کم ہوجائیں گے ۔آئندہ الیکشن صاف ،شفاف ہوجاتے ہیں توبہت سارے اختلافات کے باوجود مجھے یہ کہتے ہوئے ذرہ برابربھی ہچکچاہٹ نہیں کہ سارا کریڈٹ عمران خان اور اُن کی جماعت کو جائے گا۔
اس بات نے پریشان بھی کیاکہ عمران خان مایوسی کا شکار ہوچکے ہیں پر ہوسکتا یہ اُن کا سیاسی بیان ہو،یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنی جماعت کے اُمیدواروں کیلئے دھاندلی کے اختیارات حاصل کرنا چاہتے ہوں اور یہ دھرنے ورنے سیاست بازی ہوں ۔خیر جو بھی ہوراقم پاکستان اور پاکستانی عوام کے مستقبل کے حوالے سے کبھی مایوس نہیں ہوا اور نہ ہونا چاہتا ہے ۔پاکستان اس دنیا کے نقشے پہ تاقیامت قائم رہنے کیلئے بنا ہے اور راقم کو اُمید ہے کہ پاکستانی عوام بہت زیادہ ترقی کریں گے۔
جہاں تک بات ہے جمہوریت اور سیاست دانوں کی تو ان سے کچھ حاصل ہوتا نظر نہیں آتا ،بات تکلیف دے ہے پر حقیقت یہی ہے کہ ہم جمہوریت کے قابل ہی نہیں ،ہمارا مقدر مارشل لاء ہی بنے گا اوردیکھنے والوں کو اس بار کا مارشل لاء انتہائی سخت دکھائی دیتا ہے ۔جس قوم کے قانون دان یعنی وکلاء خوشامدی ہوں وہ کیا آئین و قانون کی پاسداری کرے گی؟قانون اور آئین کی پاسداری نہ ہوگی تو جمہوریت کیسے زندہ رہے گی؟
راقم کے خیال میں جمہوریت کو زندہ رکھنے کی اصل ذمہ داری عوام کے سر پر ہوتی ہے پر ہمارے عوام تو جمہوریت نہیںسیاسی جماعتوں کے ساتھ ہیں ۔سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ لاکھوں ،کروڑوں جعلی ووٹ سابق چیف جسٹس آف پاکستان یاوزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف یا پھر عمران خان اکیلے تو نہیں ڈال سکتے ؟قارئین محترم ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ آج دھاندلی اور دھرنوں سے ایک یا دوافرادمتاثر نہیں ہورہے بلکہ پوری قوم یرغمال بنی ہوئی ہے اور ملک کا کاروباری ڈھانچا تیزی سے تباہ ہورہا ہے یہ سیاستدان و حکمران تو اپنے مفادات حاصل کرنے کے بعد بیرون ملک عیاشیاں کرنے نکل جائیں گے بھگتناتو عوام کوپڑے گااس لئے اب عوام کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ آئندہ کسی جماعت یا اُمیدار کو الیکشن میں دھاندلی نہیں کرنے دیں گے۔
چاہے وہ ہمارے حمایت یافتہ ہی کیوں نہ ہوں۔صحافی ہونے کی حیثیت سے راقم کو اس بات پر فخر ہے کہ میڈیابے پناہ مشکلات کے باوجود عوام کے سامنے سیاست دانوں کے پول کھول کر اپنا فرض پوری ایمان داری کے ساتھ نبھا رہا ہے ۔سابق چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چودھری کے ہتک عزت کے جواب میں عمران خان کا اُن کوبار بار سلام پیش کرنا اور دھرنے میں اُن کو دھاندلی کا ذمہ دار ٹھہرانا ہمیں یہ بات سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ سیاست دان جوکہتے ہیں وہ کرتے نہیں اورجو کرتے ہیں وہ کہتے نہیں ۔اب وقت آ گیا ہے کہ کرپٹ سیاستدانوں کو عوام یہ بتا دیں کہ یہ جوپبلک ہے یہ سب جانتی ہے۔