تہران (جیوڈیسک) قدامت پسند ایرانی معاشرے میں ایسے شہریوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جو اپنے ماں باپ کے دباو کی وجہ سے شادیاں تو کر لیتے ہیں لیکن محبت کے فقدان کے باعث نتیجہ طلاق کی صورت میں نکلتا ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق ایک ایرانی خاتون کا کہنا ہے کہ اس کے والدین نے اپنی مرضی سے اس کی شادی تو کی لیکن اس کی شادی کا نتیجہ بھی طلاق ہی کی صورت میں نکلا۔ شادی اکیس برس کی عمر میں ہوئی تھی اور آج کل وہ اٹھائیس برس کی ہے۔
ایک طلاق یافتہ خاتون کے طور پر وہ اپنی شادی کے بارے میں سوچتے ہوئے اداس ہو جاتی ہے۔ لیکن اسے اپنے والدین پر پھر بھی کوئی غصہ نہیں آتا ، جنہوں نے اپنی خواہش کے مطابق اس کی شادی طے کی تھی۔ گزشتہ برس اس ملک میں طلاق کی اوسط شرح اکیس فیصد تک پہنچ گئی جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔
بڑے شہروں میں شادیوں کی ناکامی کی یہ شرح چھوٹے شہروں کے مقابلے میں کہیں زیادہ رہی۔ دارالحکومت تہران میں طلاق کی اوسط شرح تینتیس فیصد ہے ، یعنی ہر تین میں سے ایک شادی ناکام ہو جاتی ہے۔ تہران کے شمالی حصے میں تو ، جہاں زیادہ امیر اور مغربی طرز زندگی کا حامی با اثر طبقہ رہتا ہے(جیوڈیسک)
شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی شرح چالیس فیصد سے بھی زائد ہے۔ سرکاری اہلکار شادی شدہ جوڑوں میں طلاق کی اس اونچی شرح کی وجوہات میاں بیوی کے مابین محبت کا فقدان ، خاندانی مداخلت ، گھریلو تشدد اور منشیات کا استعمال بیان کرتے ہیں۔
کئی نوجوانوں کی رائے میں اس کی بڑی وجہ وہ سخت سماجی اقدار ہیں ، جن کے تحت وہ دباو میں رہتے ہیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ لچک کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ایران میں ان دنوں ایک عام لڑکی کی شادی کے وقت اوسط عمر بائیس سال ہوتی ہے۔
اس کے برعکس بہت سے قدامت پسند خاندان طلاق کے اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ اس مغربی ثقافتی مداخلت کو قرار دیتے ہیں ، جس نے ان کے بقول روایتی اسلامی اقدار کو نقصان پہنچایا ہے۔ ایران میں نئی نسل کے باغیانہ سوچ کے حامل ہونے سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔
ایرانی پارلیمان کی رواں سال جون میں شائع ہونے والی ایک تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق ملک میں ہائی سکولوں کی 80 فیصد طالبات کے نہ صرف بوائے فرینڈ ہوتے ہیں بلکہ انہیں جنسی رابطوں کا تجربہ بھی ہو چکا ہوتا ہے۔