3 گنا اضافی ٹیکس، عام تیار درآمدی اشیا کی ٹرانزٹ ٹریڈ سے امپورٹ

Importing Goods

Importing Goods

کراچی (جیوڈیسک) درآمدی تیار اشیا پر تین گنا اضافی سیلز ٹیکس کے نفاذ سے ملک میں روزمرہ استعمال کی فنشڈ پروڈکٹس کی افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمدات بڑھ گئیں۔

ذرائع نے بتایا کہ حکومت کی جانب سے ٹیکسٹائل فنشڈ گڈز، جوتوں، فنشڈ لیدر، کھیلوں کے سامان، آلات جراحی اور قالین پر اضافی سیلزٹیکس کے نفاذ نے صحت مند مسابقت کی فضا ختم کردی ہے، بظاہر اس اقدام کے ذریعے مقامی صنعتوں کو تحفظ دیا گیا ہے لیکن ایف بی آر کے اس فیصلے کا عام صارف کو کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا بلکہ چند مخصوص مینوفیکچررز کی اجارہ داری مقامی مارکیٹ میں بڑھ گئی ہے۔

ٹیکس ایڈوائزری فورم کے چیئرمین شرجیل جمال نے ایف بی آر کے اس اقدام کوامتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ تاجر دشمن پالیسیوں کی وجہ سے ملک میں قانونی درآمدات گھٹ رہی ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ریونیو کی وصولیوں میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ایف بی آر میں بلند سطح پر ویلیوایشن اور کسٹم ڈیوٹی وٹیکسز عائد کرنے کی روایت قائم ہوچکی ہے لیکن اس رویے سے قانونی درآمدکنندگان کی مشکلات بڑھ گئی ہیں جنہوں نے مجبوراً متبادل سستے ذرائع استعمال کرنا شروع کر دیے ہیں جس کی وجہ سے حکومت کو بھی ریونیو کم وصول ہورہا ہے۔

متاثرہ درآمدی شعبے کا کہنا ہے کہ فنشڈ گڈز پردرآمدی سطح پر ہی سیلزٹیکس وصول ہونے کے باوجود خوردہ سطح پر دوبارہ سیلز ٹیکس لگانا دوہرا ٹیکس ہے جس کی وجہ سے مذکورہ اضافی سیلزٹیکس کا بوجھ براہ راست عام صارف پر پڑرہا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ اگر ایف بی آر کی یہی پالیسی برقرار رکھی گئی تومستقبل میں کسی منفی نتیجے کا احساس کیے بغیر اضافی سیلز ٹیکس کے دائرہ کارکودیگر ضروری درآمدی اشیا تک توسیع دینے کے خطرات پیدا ہوجائیں گے۔

متاثرہ درآمدکنندگان کا کہنا ہے کہ انہیں محسوس ہورہا ہے کہ حکومت مقامی طور پر تیار ہونے والی مصنوعات اور درآمدی مصنوعات کے سیلزٹیکس کا علیحدہ علیحدہ ٹیرف متعارف کرانے کی حکمت عملی پر گامزن ہے تاکہ درآمدی مصنوعات کا مارکیٹ شیئر کم ہوسکے اور اگر ایسا ہوا تو پاکستان میں موجود بین الاقوامی برانڈزاپنا کاروبار سمیٹنے پرمجبور ہوجائیں گے۔ ذرائع کے مطابق حکومت ٹیکس نیٹ کوتوسیع دینے کے بجائے پہلے سے رجسٹرڈٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ ڈال رہی ہے لیکن اس حکمت عملی کی وجہ سے ٹیکس نیٹ میں وسعت کے بجائے کمی کے خطرات زیادہ ہیں۔

درآمد کنندگان کے مطابق پاکستان دنیا کا واحد ملک ہے جہاں صارفین ایک ہی کیٹیگری کی مقامی طور پر تیار شدہ اور درآمدی مصنوعات پر مختلف شرح سے ٹیکس ادا کرتے ہیں اور حکومت کے اس اقدام کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی صارفین کیلیے درآمدی اشیا زیادہ مہنگی ہوگئی ہیں بلکہ آئی ایم ایف اور ڈبلیو ٹی او کی جانب سے حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جا سکتا ہے، اس نوعیت کی غیردانشمندانہ پالیسیوں کے نتیجے میں براہ راست غیرملکی سرمایہ کاری کے متاثر ہونے کا بھی خدشہ ہے کیونکہ تمام غیرملکی سرمایہ کار جو پا کستان کو سرمایہ کاری کے لیے موزوں قرار دے رہے ہیں وہ مقامی اور درآمدی مصنوعات پر امتیازی ٹیکس لاگو ہونے سے پریشانی کا شکار ہیں۔