ہے کوئی پوچھنے والا؟

Pakistan

Pakistan

یہ بات کسی سے بھی ڈھکی چھپی نہیں بلکہ روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان بننے سے لے کر آج تک ہم نے زندگی ابتر حالات میں گزاری ہے اس کی وجوہات کیا ہیں ؟ کیوں ہم خراب تر اور زبوں حالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے ؟ کیوں ہم ترقی کی گاڑی کو فرنٹ گیئر لگانے کی بجائے بیک گیئر لگاتے رہے؟ کیوں ہماری سوچوں اور عمل کی فوج اپنوں کے ہاتھوں ہمیشہ یر غمال ہوتی رہی ؟ اور کیو ں آج تک ایک منظم قوم کا روپ اختیار نہ کر سکے ؟ واہ ایک پنجابی شاعر نے کیا خوب عکاسی کی ہے۔

بیٹری کاغذاں دی باندر ملاح بنیا
اننا چلیا پور لنگاونے نوں
پکھا کرئے کھنڈ تے کھیر دی راکھی
رنڈا چلیا ساک کروانے نوں

ہماری یہ بدقسمتی ہے کہ قائداعظم محمد علی جناح کے بعد جس کسی کا بھی دائو لگا اس نے ملک کو دونوں ہاتھوں سے خوب لوٹا ۔ لوٹ مار کرنے والوں میں ہر طبقہ کے افراد نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ اور ایک قومی فریضے کے طور پر قومی خزانے کو لوٹنے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کیا ۔ قائد کی اس امانت میں ایسے ایسے طریقوں سے خیانت کی گئی کہ شائد شیطان بھی ان کے کارناموں پر شرمندہ ہوتا ہو گا ۔ اور سیاست کو عبادت کہنے والوں سے ضرور سرگوشی کرتا ہو گا۔ کہ آپ میرے بھی باپ نکلے۔ قائد اعظم کے بعد جب کسی نواب نے مسند اقتدار پر اپنا تکیہ جمایا تو اپنی نوابانہ حکمت عملی سے قوم کو تباہی کے راستے پر گامزن کر دیا تو کبھی غلامانہ سوچوں کی شخصیت کا حامل بندہ قوم کی قسمت کا ستار ہ بن کر نازل ہوا اور اپنی بیمار زہنیت سے قوم کی تباہی کا موجب بن گیا کبھی کوئی فوجی امر بے لگام گھوڑوں کے ساتھ اقتدار کے ایوانوں میں داخلا ہوا تو اس ملک کا ستیاناس کر کے مسائل کی گھمن گھیریوں میں پھنسا گیا۔

سیاستدانوں کا بیرونی اندرونی بیساکھیوں کا سہارا لے کر اور دھاندلی کی سیڑھیاں چڑھ کر اقتدار کے ایوانوںمیں داخل ہونا خوبصورت جمہوریت کے لیے مرضِ کینسر ثابت ہوا۔آج ہم بھائی بھائی ہونے کا نعرہ تو لگاتے ہیں لیکن مثل برادرانِ یوسف کے آپس میں دوستی و محبت ، اتفاق و اتحاد او ر خلوص و چاہت نہ ہونے کے برابر ہے۔ کراچی تا خیبر حسد ، بغض و عدوات کے اثرات پائے جاتے ہیں ۔ ہمارے یہ سیاستدان نام نہاد رہنما طبقات اور سندھی ، پنجابی ، بلوچی اور پختون میں باہمی نفرت کے جذبات اور صوبائی تصبیب کا سبق دینے میں اپنا پورا پورا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ یہ وہ لوگ ہیں جنہوںنے ملک و قوم سے چنداں غر ض نہیں صرف اپنے مفادات عزیز ہیں۔ یہ عوام کے ووٹوں سے اقتدار میں تو آ جاتے ہیں پھر بجائے عوام کی خدمت کے الٹاان کا استحصال شروع کر دیتے ہیں ۔ مجھے تو اپنے ملک کے عوام کی سمجھ نہیں آتی جو بار بار ان کی مکار چالوں میں آ جاتے ہیں ۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ عوام کو پتہ ہونے کے باوجود کے سٹیج پر کھڑا سیاستدان نہیں ڈاکو ہے۔

Corruption

Corruption

قبل ازیں یہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈال چکا ہے ۔کرپشن کا بادشاہ پھر بھی اُس کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالتے ہیں اور واہ واہ کرتے تالیاں بجاتے ہیں ۔ ایسے لوگوں کا انتخاب کر کے ملک کو ان کے رحم و کرم پر چھوڑ دینا شہر کی چوکیداری کے لیے چوروں کے انتخاب کرنے کے مترادف ہے۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالی ہے مجھے تو کوئی ایسا حکومت کا محکمہ نظر نہیں آیا جہاں کرپشن اور چور بازاری کا راج نہ ہو ۔ کلر ک سے لے کر آفیسر تک ہر شخص رشوت سر عام وصول کرتا نظر آتا ہے۔جب سرکاری محکموں کا یہ حال ہو تو عام آدمی کی حالت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ کسی قسمپرسی کی زندگی گزار رہا ہو گا۔ عوام کے یہ خادم دن رات عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہیں اور المیہ یہ ہے کہ ان کو کوئی پوچھنے والا ہی نہیں۔

احباب کہتے ہیں کہ ضرب المثل نہیں بدلتی لیکن میں حیران ہوں کہ آج ضرب المثل بدل گئی ہیں ۔مثلا َ جو گرجتے ہیں وہ برستے ہیں لیکن ہم نے دیکھا جنرل ضیاء الحق صاحب گرجے بھی اور برسے بھی ، پرویز مشرف صاحب گرجے اور برسے ، زرداری صاحب گرجے اور برسے۔ اسی طرح نواز شریف صاحب گرج رہے ہیں اور برس بھی رہے ہیں اب دیکھنا ہے قادری صاحب اور عمران خاں کی گرج کا کہ اس ضرب المثل کو بدلتے ہیں کہ نہیں ۔ کہتے ہیں چور کے گھر میں دیا نہیں جلتا ۔ عوام دیکھ رہی ہے کہ چوروں کے گھروں میں فانوس روشن ہیں جب ان چوروں کی طر ز زندگی کو دیکھتے ہیں تو انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔

سفر کے لیے انتہائی قیمتی اور چمکدا ر گاڑیاں ، کھانے میں لا تعدار ڈشیں ، لاکھوں کی شاپنگ ، معمولی بیماری ہو امریکہ اور یورپ کے ڈاکٹروں کے پاس دوڑے جاتے ہیں ۔ ان کے بچے دنیا کے مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہو رہے ہیں ۔ سیاستدانوں کی اولاد سیاستدان، جنرل کا بیٹا فوجی آفیسر، انجینئر کے بیٹے انجینئر اور ڈاکٹرز کی اولاد ڈاکٹر ز بن رہی ہے۔ اس گروپ میں عام انسانوں کی ذہین ترین اولاد کی انٹری کے لیے دروازے بند کر رکھے ہیں۔ ضرب المثل ہے کہ چور کے پائوں نہیں ہوتے ۔ یعنی ذرا سے شک اور آہٹ کی آواز پر چور پائوں سر پر رکھ کربھاگ جاتے ہیں لیکن واہ ان کے اتنے مضبوط پائوں مجھے تو شُبہ ہے کہ شائد ان کے پائوں تلے کیل ہیں ۔ جو نہ قانونی پٹاخے ان کو ہلا سکے اور نہ قانونی محافظوں کی قانونی گنیں ان کا کچھ بگاڑ سکی۔

جب ایوانوں کی کرسیوں کا تقدس نیلام ہونے لگے جب قانون اپنی بے بسی کا اظہار کرنے لگے جب شرفاں اپنی چادروں کی بکل میں منہ چھپانے لگے اور جب باغ کے محافظ خود چوروں کا روپ دھارنے لگے تو عام ذہن یہ سوال ضرور آتا ہے۔

Ehsan Ahmed Ghuman

Ehsan Ahmed Ghuman

تحریر: احسان احمد گھمن
ehsan.ghumman@yahoo.com