اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کے مرد و زن ہی نہیں بلکہ نوجوان اور بچے بھی سر شام اپنے پسندیدہ چینلوں کو چھوڑ کر ملک میں پھیلے سیاسی انتشار سے متعلق خبروں کے لیے نیوز چینل دیکھنا شروع ہو جاتے ہیں۔
جیسے ہی ٹی وی چینلوں کا پرائم ٹائم یعنی شام کا وقت شروع ہوتا ہے ، زیادہ تر لوگ کام کاج ختم کر کے ٹی وی کے سامنے بیٹھتے ہیں تو دھرنوں کا شو شروع ہو جاتا ہے۔ ایک میلہ سا سج جاتا ہے۔
تقاریر کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوتا ہے اور مظاہرین کو بغیر ٹکٹ کے لائیو موسیقی سننے کا موقع بھی ملتا ہے جب کہ دھرنوں کے سیاسی رہنما وقفے وقفے سے آ کر خطابات کے ذریعے تجسس کو کم نہیں ہونے دیتے۔ سب سے پہلے خبر دینے کا جنون بھی عروج پر ہے۔
جس نے ٹی وی چینلوں کے ورکرز کو ڈیوٹی سے زیادہ وقت تک رہنے پر مجبور کر رکھا ہے۔ برطانوی خبر رساں ادارے کے مطابق پاکستان میں لگ بھگ 50 ٹی وی چینل چار زبانوں میں دھرنوں کی 24 گھنٹے کی کوریج کر رہے ہیں۔
نیوز چینلوں نے تفریحی چینلوں کو مات دے دی ہے۔ اعداد و شمار جمع کرنے کے واحد ادارے ، میڈیا لاجِک نے 14 اگست سے لے کر 24 اگست تک شائقین کی ٹی وی ترجیحات کا مطالعہ کرتے ہوئے بتایا ہے کہ دھرنوں کی کوریج کے دوران نیوز چینلوں کے ناظرین کی شرح میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔
جبکہ تفریحی چینلوں کے شائقین میں 20 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اگر ان دھرنوں کو 24 گھنٹے کی کوریج کے بجائے متوازن کوریج ملتی تو حکومت مخالف دھرنے اتنے با اثر نہ ہوتے اور آج ملک شائد سیاسی بحران کا شکار نہ ہوتا۔
آپریشن ضربِ عضب کے متاثرین ، بلوچستان کے لاپتہ افراد یا لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل شاید آج کل بیچنا مشکل ہو گیا ہے کیونکہ ان کا ذکر نہ ہونے کے برابر ہے۔