پاکستان کو آزاد ہوئے 67 سال ہو چکے ہیں۔ ان 67 سالوں میں بے شمار لوگوں نے صدر اور وزیراعظم کی کرسی پرقبضہ جمایاجن میں سے کچھ تو عزت کے ساتھ رخصت ہوئے جبکہ زیادہ ترعبرت کانشان بنتے رہے لیکن المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی صدر، وزیراعظم یاان کی کابینہ ذرہ برابر بھی ملکی حالات کونہ بدل سکے۔ ہر حکومت میں قرضوں کا حجم کم ہونے کی بجائے مزید بڑھا اور کوئی بھی حکومت ایسی نہیں تھی جس پر کرپشن کے الزامات نہ لگے ہوں یہ ایسی کرپشن ہے جس سے ہرفرد بخوبی واقف ہے لیکن میں یہاں ایک ایسی کرپشن کا ذکر کروں گا جس میں ہر دوسرا پاکستانی مبتلا ہے۔ یہ کرپشن ہرکرپٹ آدمی اس حد تک کرتا ہے جہاں تک اس کی پہنچ ہوتی ہے۔
پاکستان ایک ترقی پذیر ملک ہے جسے ایماندارافرادکی دن دُگنی اوررات چُگنی محنت سے ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں کھڑا کیا جاسکتا ہے۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستان کے ہرادارے میںایماندارافرادکی تعدادکم اور لوٹنے والے افرادکی تعداد زیادہ ہے۔ جبکہ زیادہ تر لوگ اس وقت تک ایماندار ہوتے ہیں جب تک ان کی دسترس میں بے ایمانی نہیں ہوتی۔
پاکستان میں کرپشن ایسے ایسے طریقوں سے کی جاتی ہے کہ ہر انسان کی عقل دنگ رہ جاتی ہے اور لوگ ایسے طریقوں پر شرمندہ ہونے کی بجائے بڑی ڈھٹائی سے ان پرعمل کرتے ہیں جیسے وہ کوئی بہت بڑی قومی ذمہ داری نبھارہے ہوں اگر کوئی فرد ریلوے میں ملازم ہو تو اس کی اپنی فیملی کے ساتھ ساتھ اس کے کزنز کی فیملیاں اس کی بیوی کے رشتہ داروں کی فیملیاں غرضیکہ بہت سے رشتہ داروں کو جب کبھی بھی سفر کی ضرورت پیش آئے تو ان کوبالکل فری ٹکٹیں گھر پر میسر ہوتی ہیں۔ اس لوٹ مارمیں ہر دوسرا ریلوے ملازم ملوث ہے جس سے پاکستان ریلوے ہرسال نفع حاصل کرنے کی بجائے خسارے میں مبتلا ہے۔
اگر سرکاری ہسپتالوں کی بات کی جائے تو وہاں غریب مریضوں کیلئے گورنمنٹ کی طرف سے ایشوکی جانے والی ادویات کو زیادہ تر ڈاکٹرز اپنے پرائیوٹ کلینک میں لے جاتے ہیں تاکہ وہ ان ادویات کو مہنگے داموں فروخت کر سکیں جس وجہ سے سرکاری ہسپتالوں کے کلینک پر ہمیشہ ادویات کی کمی رہتی ہے اور غریبوں کے بچے بے یارومددگار ہی مرتے ہیں۔ اسی طرح اگر پاکستانی عدالتوں کی بات کی جائے تو یہ بات ہروہ شخص بخوبی جانتا ہو گا جس کا کوئی کیس عدالت میں چل رہاہے کہ وہاں کہ چوکیدار سے لیکر اعلیٰ عہدیداران کی جیبیں جب تک گرم نہ کی جائیں تو کسی کی بات ہی نہیں سنی جاتی۔
پاسپورٹ اور نادرا آفس کے باہر تو باقاعدہ ایجنٹ موجود ہوتے ہیں جن کے مخصوص ریٹس ہوتے ہیں اور جب مطلوبہ رقم انہیں فراہم کردی جائے تو وہ کام جو غریب آدمی کا کئی کئی دنوں بعد بھی نہیں ہوتا وہ منٹوں میں کروا دیا جاتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ چائے اور بسکٹ کے ساتھ اسکی خاطر تو اضع بھی کی جاتی ہے۔ جبکہ غریب اور ایماندار آدمی سردی ہویا گرمی پورا پورا دن لائنوں میں دھکے کھاتا رہتا ہے پھر جب اس کی باری آتی ہے تو اس وقت نیٹ ورک کا مسئلہ یا بجلی بند ہونے کا بہانہ لگا کر ٹال دیا جاتا ہے۔
Load Shedding
لوڈشیڈنگ آج کل پاکستان کاسب سے بڑا مسئلہ ہے اور یہ مسئلہ اس لئے ٹھیک نہیں ہو رہا کیونکہ ہر پاکستان کے ہر دوسرے محلے اور دوسری گلی میں بجلی چوری کی جارہی ہے۔ اسکے علاوہ وہ آدمی جو واپڈا میں ملازمت کر رہے ہیں ان کے گھر میں دو دو میٹر لگے ہوتے ہیں تاکہ اگر ایک لائن سے بجلی جائے تو دوسری لائن کے میٹرسے بجلی جاری رکھی جاسکے۔
ان نچلے درجے کے کرپٹ لوگوں کے خلاف ایکشن اس لئے نہیں ہوتا کیونکہ انہیں اعلیٰ عہدیداران کی سرپرستی حاصل ہوتی ہے۔ ان سارے کرپٹ لوگوں سے صرف ایک ہی صورت میں نجات حاصل کی جاسکتی ہے اگر ملک میں احتساب کااصول لاگو کر دیا جائے۔ کیونکہ جب پاکستان کے اداروں میں موجود ہر چھوٹے بڑے ملازم کواس بات کا خطرہ ہوگا۔ کہ اگروہ پکڑا گیا تو اس کو معافی کی بجائے سخت سزا ملے گی اور اس کاا حتساب کیا جائے گا۔ تو کوئی بھی اس بات کی جرات نہیں کرے گا کہ وہ کسی بھی طرح کی بے ایمانی کرے اور کرپشن سے اپنا دامن داغ دار کرے۔ ملکی ترقی کے لئے اس اصول کو لازماََ لاگو کرنا چاہئے۔ اس لئے کہ جب اداروں سے بے ایمان اور کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ہوگا تو اس سے ادارے بھی مضبوط ہوں گے۔ اور ملکِِ پاکستان بھی جلد از جلد ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں آسانی سے کھڑا ہوجائے گا۔