سیاسی اونٹ کسی کروٹ بیٹھے گا؟

Pakistan

Pakistan

سیانے کہتے ہیں لگن سچی ہو، ارادہ مضبوط ہو اور حاصل کرنے کا جنون ہو تو منزل خود بخود سامنے آجاتی ہے۔ اس بات کی تائید میں فرانسیسی دانشور رول ڈیورانٹ نے تو یہاں تک کہ دیا ہے کہ تینوں باتیں بھینس میں آجائیں تو وہ فرانس کی صدر بن سکتی ہے لیکن بھینس نے کبھی یہ کوشش نہیں کیوہ صرف دود دینے پر مصر ہے۔۔۔۔۔۔۔جیسا کہ ہماری موجودہ حکومت؟ ہمارے پیارے وطن پاکستان کو معرض وجود میں آئے تقریباََ 68 برس بیت چکے ہیں۔

ان 68 سالوں میں جہاں ہم نے ترقی کی منزل طے کر کے ایٹمی طاقت بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے وہاں ہماری محرومیوں میں بھی بتدریج اضافہ ہوا ہے ۔1947 ء سے لے کر ابتک اقتدار کی طوائف چند خاندانوں کے ہاتھوں رقص کرتی چلی آئی ہیں۔ کہ جنہوں نے روزاول سے ہی ہماری اس ریاست (پاکستان) کو پرغمال بنا کر اپنی اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔ جن میں کاغذی شیر(میاں برادران) سرفہرست ہیں جن کے سیاسی قد کاٹھ میں دھاندلی کا بہت بڑا عمل دخل شامل ہے تین بار اقتدار میں آنیوالے نوازشریف نے اپنے عہد حکومت میں ملک و قوم کے لیئے کچھ نہیں سوچا، اگر کچھ غورو فکر کرتے تو آج ہماری یہ حالت نہ ہوتی ہمارے شریف برادران تو صرف اور صرف اپنی صنعت کو فروغ دے کر ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ کر پاکستان کے علاوہ بیرون ملک اپنی انڈسٹریاں لگا کر اپنے کاروبار کو مزید وسیع کرنے کے لیئے کوشاں ہیں۔ میٹروبس اور میٹروٹرین کا منصوبہ اسکی اہم کڑی ہیں۔

کیونکہ اس منصوبے میں لوہا استعمال ہوگاجس سے میاں برادران خوب منافع کمائیں گے ۔آزادی مارچ 14 اگست سے شروع نہیں ہوا بلکہ اس کا اعلان تو عمران خان نے بہاولپور میں منعقد ہونے والے جلسہ میں ہی کر دیا تھا اور تحریک انصاف کے کارکنان نے جلسہ کے بعد اپنی تیاریاں شروع کر دی تھیں اور تخت لاہور میں سانحہ ماڈل ٹاون کے بعد آزادی مارچ اور انقلاب مارچ نے طوفان کا روپ دھارلیا تھا۔ کیونکہ موجودہ حکومت اور بلخصوص شریف برادران لاقانونیت ، اقراپروری، ریاستی غنڈہ گردیکی تمام حدیں کراس کر چکے تھے۔ انہوں نے اپوزیشن سے مذاکرات کرنے کی بجائے ، آزادی مارچ اور انقلاب مارچ روکنے کی کے لیئے اوچھ ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کر دیئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں میٹروبس کا منصوبہ ٹھونس کر اس کے حسن و خوبصورتی کو گہنا کے رکھ دیا ہے۔ شاہرائیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پورا شہر کھنڈرات کا منظر پیش کر رہاہے اور گردوغبار ہر گزرنے والے کا استقبال کر رہی ہے۔ سیاسی سرگرمیوں کوروکنے کے لیئے آمدرفت کی صورتحال کو انتہائی پیچیدہ بنا دیا گیا مگر پھر بھی آزادی اور انقلاب مارچ نہ رک سکا اوربالاآخر ریڈ زون میں داخل ہو گیا۔ عمران خان سول نافرمانی کے اعلان کے بعد اپنے کارکنوں کے ہمراہ ریڈ زون میں ڈہرہ جما لیا ہے۔

Raheel Sharif, Imran Khan, Tahir ul Qadri

Raheel Sharif, Imran Khan, Tahir ul Qadri

استعفے بھی دے دیئے ہیں۔ نوازشریف سے ملاقات کے بعد راحیل شریف نے حکومت کو افہام و تفہیم کے ساتھ معاملات پر غور کرنے کا مشورہ دیا ہے تاکہ تصادم تک نوبت نہ پہنچے۔ کیونکہ اگر تصادم کی ذرا سی صورتحال نکلی تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان ہو گا۔ دھرنوں کی وجہ سے ملکی معیشیت ہچکولے کھارہی ہے، سیاسی میدان گرم ہے اور لمحہ لمحہ صورتحال تبدیل ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں مجھ جیسے نکمے طالب علم کو دشواری پیش آرہی ہے اب یہ سطور لکھ رہا ہوں تو ہو سکتا ہے جب آپ یہ پڑھ رہے ہوں تو کوئی مثبت صورتحال نکل چکی ہو گی کیونکہ حکومت مذاکرات کر رہی ہے ۔ سیاسی کھیل جذبے اور زبان کا کھیل ہے جس سیاستدان ے پاس یہ دو چیزیں ہوں اس کے لیئے راستہ آسان ہو جاتا ہے ۔ اگر ان دو چیزوں کے ساتھ ساتھ کسی کو اس کے استعمال کا ڈھنگ بھی آجائے تو کوئی مشکل راستہ نہیں روک سکتی۔ شریف حکومت اور ان کے وزیروں مشیروں کے پاس یہ تینوں چیزیں ہیں۔ ان کے پاس جذبات اور احساسات کا خام مال بھی ہے ۔ اپنی بساط سے بڑھ کر الفاط کا خزانہ بھی اور مصالے دار بیان بازی بھی ہے موجودہ صورتحال میں جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔رہی سہی کسر ایک مقبول نجی ٹی وی چینل نے پوری کردی ہے جس نے صحافتی اقتدار کی ایسی پامالی کی ہے جس کی جدید دور میں مثال نہیں ملتی ، انکے ردعمل سے یہ لگا ہے کہ حکومت انہی کی ہے اور انہیںاپنی حکومت کے جانے کا خدشہ ہے۔ اتنی تو حکومت نہیں بوکھلائی جتنا یہ بوکھلا گئے ہیں۔ عمران خان سچا اور کھرا انسان ہے ، قوم کا درد بھی رکھتا ہے اور کارکنوں کی ایک بڑی تعداد بھی اس کے پاس ہے مگر وہ عوام کے ناک پر بیٹھی ہوئی مکھی کو ہاتھ کی بجائے پتھر مار کر اڑا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔سیاست کے دائو پیچ اور پتے کھیلنے نہیں آتے۔

دوسری طرف ڈاکٹر طاہرالقادری کے پاس وہ کارکن موجود ہیں جو ان کے لیئے جان دے سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بھی سچے اور کھرے اور جذباتی انسان ہیںمطالبات تو ان کے بھی ٹھیک اور جائز ہیں مگر انقلاب کے بعد کا کوئی پروگرام ان کے پاس بھی نہیں کیونکہ وہ بھی سیاسی کھلاڑی نہیں ، ان کو بھی پتے کھیلنے نہیں آتے ۔ میدان تو گرم ہے مگر طرفین میں سیاسی حکمت و دانش اور تدبر کی کمی ہے اور سیاسی بحران ہے اس صورتحال میں دیکھنا یہ ہے کہ اپوزیشن اپنی ساکھ سے محروم ہو گی یا حکومت کو بہت بڑا دھچکا لگے گا۔

کہتے ہیں چھوٹے جرم کرتے ہیں اور اس کا خمیازہ بڑوں کو بھگتنا پڑتا ہے یہ سارا کیا دھر چھوٹے میاں کا ہے اب دیکھتے ہیں دونوں میں سے کون قربانی دیتا ہے ، چھوٹا میاں یا بڑا، بحرحال سیاسی اونٹ میدان میں سرپٹ دوڑ رہا ہے اور جب اونٹ دوڑتا ہے تو کئی لوگ اس کی زد میں آجاتے ہیں۔ اور کئی بچوں کو روندتا ہوا آگے گزر جاتا ہے اور اگر مست ہو جائے تو زیادہ خطرناک ہو جاتا ہے ۔ اب سیاسی اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ 19 کروڑ عوام کی نظریں اسی پر جمی ہیںاور دعا گو ہیں کہ اللہ پاک حکمرانوں کو ہدایت دیں اور آپس کی رنجشیں ختم کر کے ملک کو امن کا گہوارہ اور صیح معنوں میں جمہوری ملک بنائیں۔۔۔۔۔۔۔(آمین)۔

Syed Mubarak Ali Shamsi

Syed Mubarak Ali Shamsi

تحریر : سید مبارک علی شمسی
ای میل۔۔۔۔۔۔۔۔۔mubarakshamsi@gmail.com