اعلیٰ عدلیہ نے عمر قید کی سزا سنا دی۔ میرا “شعور” بے قصور ہے۔ ماں ” تمیز” روتی چلاتی رہی ۔ صحافی کے سوال کے جواب میں تمیز نے بتلایا کہ اُس پر اللہ بڑا مہربان ہوا جب شعور جیسے بیٹے سے اُسے نوازا۔ مزید بتلایا کے شعور کی شکل و صورت نہایت دلکش تھی۔ اُس کی موٹی موٹی آنکھیں ظاہری و باطنی چیزوں کو دیکھنے کی صلاحیت رکھتی تھی۔ جب اُس نے Ph.Dفلسفہ میں ٹا پ کیا تو نہ جانے کس کی نظر لگ گئی ۔ ہر وقت رونا دھونا اور تڑ پنا شعور کی قسمت میں لکھ دیا گیا۔
بے سکونی اُ سکا مقد ر ٹھہری ۔ بڑا علاج کرایا مگر بے سود۔ آخر قابل ڈاکٹروں کا ایک بورڈ بیٹھا جس نے شعور کا سٹی سکین کیا اور مرض کی تشخیص کر لی کہ شعور کی آنکھیں نکال دی جائیں تاکہ بے حسی کی فضا میں وہ خوش رہ سکے۔ ماں تمیز نہ مانی کیونکہ شعور اُس کا اکلوتا ہیرا تھا اور بڑی منتیں ، دعائیں مانگ مانگ کر اللہ نے اُسے یہ موتی عطا کیا تھا۔ شعور کا دن رات کا رونا دیکھ کر ماں تمیز سے رہا نہ گیا۔ حکیم وقت سے علاج کروانے کا فیصلہ کر لیا۔ حکیم صاحب کا واقعی ہی حکمت و دانائی میں کوئی ثانی نہ تھا۔ شعو ر کا معائنہ کیا۔ ماں تمیز کو تسلی دی کہ مرض لا علاج نہ ہے اور یہ شعر سناتے ہوئے۔ َ
“تمیز لالہ و گل سے ہے نالہ بلبل جہاں میں وا نہ کوئی چشما متیاز کرئے ” شعور کو نیند کی دوا پلا دی اور مشورہ دیا کہ اے تمیز شعور کو ایسے شہر آباد کر دو جہاں لوگ اپنی قسمت پر خوش او ر ناز کرتے ہوں۔ جہاں انسانیت کی قد ر ہو ۔ جہاںبھائی چارے کی فضا او ر اپنائیت میں کشش ہو ۔ ایسا شہر جو شیطانی خود غرضی و مادہ پرستی سے محفوظ ہو۔ جہاں خوشی و سادگی ہر وقت محور رقص ہو۔
جہاں انسانیت زندگی کے حقیقی معنوں سے آشنا ہو ۔ ایسے شہر جہاں خلوص کا سرمہ شعور کی آنکھوں کا مقدر اور یگانگت کا لہو اُ س کے دل کا سامان بنتے۔ جہاں شرم و حیا کے موتی سیپیوں میں بند ہو ں۔ جہاں لوگوں کے دل پکے اور مکان بے شک کچے ہوں۔ حکیم صاحب کی باتیں سن کر میں ہنس پڑی کہ حکیم صاحب کتنے احمق اور دقیانوسی خیالات کے مالک ہیں ۔ جدید دور ہے انسان کہاں سے کہاں چلا گیا ہے۔
Consciousness
میں اپنے شعور کو غریبوں کی بستی میں تو رکھنے سے رہی ۔ نمود و نمائش کی چمک کی بھی آخر قدر ہوتی ہے۔ لہذا میں نے اپنے شعور کی رہائش کے لیے ڈیفنس کالونی کو منتخب کیا۔ شعور کے لیے میں کیا کچھ نہ کر سکتی تھی۔ ڈیفنس میں اپر کلاس کے لوگ رہائش پذیر تھے۔ ہر طرف رنگینی ہی رنگینی تھی۔ ڈیفنس کا علاقہ کیا تھا کہ دنیا میں جنت سے کم نہ تھا۔ شعو رکے لیے بڑا علیشان بنگلہ خریدا۔ بنگلے میں دنیا کی ہر آسائش تھی۔ اوپر والے پورشن میں شعور کا بیڈ روم آراستہ کیا گیا جس میں قیمتی فرانسیسی فرنیچر رکھا گیا ۔ سامنے کمپاونڈ میں غرض نشاط کے لیے ایک جھولا جس پر سونے کی تار کشی کی گئی تھی شعور کے لیے لگا دیا گیا۔ ناجانے اس جنت میں میں شعور ناخوش کیو ں تھا۔?
ہمارے بالمقابل ایک بہت بڑے امیر آدمی کی کوٹھی تھی ۔ اتنا دولتمند اور امیر تھا کہ دولت اُسکی دہلیز سے باہر نکل رہی تھی ۔ اُس کی ایک بہت خوبصورت اور قیمتی اولا د اُسکی بیٹی “حماقت” تھی۔ جسکے آگے پیچھے بیسیوں نوکر نوکرانیاں خدمت پر معمور تھیں۔ کتنی دلکش تھی کہ مجھ سے رہا نہ گیا میں نے اپنے شعور کی زندگی جنت بنانے کی خاطر رشتہ مانگ لیا۔ شعور بہت رویا چلایا لیکن میں نے اُس کی ایک نہ سنی۔
ایک دن حماقت مجھے اور شعور کو ملنے ہمارے گھر آئی میرے بیٹے شعور نے حماقت کا گلا دبا دیا۔ حماقت مرگئی۔ شعور کے خلاف قتل کا مقدمہ درج ہو گیا۔ جو انصاف کی عدالت میں چلا اور انصاف کی عدالت عالیہ نے شعور کو عمر قید کی سزا سنا دی ہے۔ میرے زندگی خراب ہو گی ہے ۔سکھ چین چھن گیا ہے۔ اور میں دُعا کرتی ہوں کہ اللہ کسی کو شعور نہ دے ۔ اگر دے تو اس کو حکیم صاحب کی تجویز کردہ بستی میں رکھے ورنہ زندگی خراب ہو جائے گی۔