زندگی بھی عجیب چیز ہے۔اس کے وجود کو زندہ رکھنے کے لئے کیا سے کیا پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ایک زندگی بہت سے رشتوں کے دھاگوں میں جڑی ہوتی ہے۔زندگی کی ابتداء عیش و آرام سے ہوتی ہے۔بچپن میں بڑی معصوم ہوتی ہے لیکن جوں جوں زمانے کی گرم ہوائوں کے تھپڑے اس کے نازک بدن پر پڑتے ہیں ۔یہی معصوم زندگی بہت سی ذمہ داریوں میں گِر جاتی ہے۔
یہی زندگی امیروں کے گھروںمیں تو خوش و خرم رہتی ہوگی ۔کیونکہ وہاں سکون کے علاوہ ہر چیز میسر ہوتی ہے۔روپے پیسے کی کمی نہیں ہوتی۔ہر خواہش لبوُں پر آنے سے پہلے پوری ہو جاتی ہے۔یہاں زندگی عیاشی بھی خوب کرتی ہے۔دوسروں کے حق پر ڈاکے بھی مارتی ہے۔یتیموں کی جائیدادیں بھی ہڑپ کرلی جاتیں ہیں۔غریبوں کی عزتوں کی پرخچیاں اڑاتی نظر آتی ہے۔بے بس ،مجبور لوگوں کی مجبوریوں سے کھیلنا کا ہنز جانتی ہے۔حتی کہ غربیوں کی عزت سے لے کر چولہے کی چھوٹے برتن تک اس کاحق ہوتا ہے۔لیکن ۔۔۔؟
لیکن یہی زندگی غریبوں کے آنگن میں کتنی بے بس ہوتی ہے۔نہ تن ڈھانپنے کے لئے پورا لباس ملتا ہے ،نہ زندہ رہنے کے لئے پوری غذائ۔اس کے بچے ننگے تڑنگے کوڑا کرکٹ کے گنڈے ڈھیروں سے اپنے لئے خوراک تلاش کرتے رہتے ہیں۔ہوٹلوں سے بچی کھچی روٹی کے ٹکڑے چراتے ہیں۔غریبوں کے ہاں زندگی کو کتنی محرومیوں سے واسطہ پڑتا ہے۔کون جانتا ہے؟کس کو فکر ہے۔؟جدید دور میں ہر بشر اپنی ہی سوچتا ہے۔
اپنے ہی لئے کماتا ہے۔اپنے لئے ہی جیتا ہے۔اپنے مفاد کے لئے دوسروں کے ارمانوں کا خون کرتا ہے۔جو اپنے تن کے کپڑوں کو میلا نہیں ہونے دیتے۔ان کو کیا خبر غربیوں کی بستیوں میں زندگی کتنی مایوس ہے۔خود کو زندہ رکھنے کے لئے یا اپنے سے وابسطہ ،اپنے سے جڑے خاندان پالنے کے لئے کیسی کیسی تکلیفوں سے گزرتی ہوگی۔ایک بے بس زندگی اور اس کے کمزور کندھوں پر ہزاروں ذمہ داریاں ،کیسے نبھا پاتی ہوگی۔
آج کے اس دور میں مہنگائی کا طوفان،نفرتوں کے انبار،خون کے بدلتے رنگوں سے تنگ آکر یہی زندگی احساس کمتری کا شکار ہو جاتی ہے۔محرومیوں کی بستی میں جیتے جیتے خود کشی جیسے حرام اقدام اٹھانے سے دریغ نہیں کرتی۔کبھی خود کو پانی کے حوالے کرکے تو کبھی خود کو آگ لگا کر موت کے حوالے کرنے کے پلان بناتی ہے۔
تاریخ شاہد ہے۔خود کشی کی شرح روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔بھلا کون خوشی سے مرنا چاہتا ہے۔کون ہے جو خوشیوئوں میں رہتے ہوئے خود کشی کرنا چاہتا ہے۔کوئی بھی نہیں؟ہمیشہ زندگی ،اپنوں کے ستموں سے،زمانے کے ظلم و جبر سے،معاشرے کی بے انصافیوں سے تنگ آکر خود کو ختم کرلیتی ہے۔اپنے ساتھ ساتھ اپنے بچوں کو بھی موت کی نیند سلادیتی ہے۔
زندگی آخر اتنی محرومیوں میں کیسے گِر جاتی ہے۔اس کے پیچھے کیا محرکات ہیں۔ زندگی خود تو فنا نہیں ہو نا چاہتی۔بے انصافیاں مار دیتی ہیں۔آج کے بے حس دور میں جہاں امیر، امیر سے امیر تر ہو تا جا رہا ہے۔اور غریب غربت کی انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔خود کو زندہ رکھنے کے لئے اپنے جسم کے قیمتی حصے،دل گردے فروخت کرنے پر مجبور ہیں۔
Society
سوال یہ اٹھتا ہے کہ ان کی ذمہ داریاں معاشرے ،اقتدار کے لوگوں پر عائد نہیں ہیں۔حکومت کا فرض ہے کہ اپنی رعایا کو بنیادی ضروریات زندگی توفراہم کرے۔مگر ان کو اپنی تجوریاں بھرنے سے فرصت ہی نہیں ہے۔بنیادی ضروریات میں روٹی کپڑامکان شامل ہے۔مگر یہاں صرف نعرے لگوائے جاتے ہیں عمل درآمد شاید کبھی نہیں ہوگا۔کیا یہ قیامت کی نشانیوں میں ایک نشانی نہیں ہے۔کہ انسانوں کے قول کچھ اور فعل کچھ ہیں۔ہر کوئی نفسا نفسی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ معاشرے کا ہر فرد اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھائے اور زندگی کو زندہ رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔کیونکہ زندگی اللہ تعالیٰ کی بہترین نعمت ہے اور ہمیں چاہئے نعمتوں کا صحیح استعمال کریں۔اپنے مفادات کو چھوڑ کر دوسروں کے لئے جینا سیکھیں۔تب کوئی بھی خود کشی نہیں کرئے گا،اپنے بچے فروخت نہیں کرئے گا۔